حقیقت کی تلاش میں ( ہندوستان )-2،آخری حصّہ/شاکر ظہیر

2- یہ کائنات بالکل ہی غیر حقیقی نہیں ہے بلکہ حقیقی بھی ہے اور غیر حقیقی بھی ۔ اس اعتبار سے خارج میں موجود ہے یا حقیقی ہے کہ یہ خدا کا مظہر ہے ۔ اور اس اعتبار سے غیر حقیقی ہے کہ بذات خود موجود نہیں یعنی اس کی حقیقت وجود نہیں بلکہ عدم ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حقیقت ہے ، وجود ہے وہ بالذات موجود ہے ، واجب الوجود ہے ۔ خدا تو واجب الوجود ہے ۔ یہ کائنات ممکن الوجود ہے ۔ ممکن ایسے کہ وہ ہستی جس میں خدا کے تصورات بالفعل ظاہر ہوں ۔ کائنات کو حقیقی سمجھنا سب سے بڑی نادانی اور دھوکا ہے ۔ یہ کائنات خدا سے اسی طرح صادر ہوئی ہے جس طرح سورج سے شعاعیں صادر ہوتی ہیں ۔ کائنات کا وجود خدا کے وجود کی طرح حقیقی نہیں ۔ دیکھو تو وجود ہے ، غور کرو تو اس کا کوئی وجود نہیں ۔ جس طرح شعلے کی گردش سے دائرہ پیدا ہو جاتا ہے اس دائرہ کا وجود محسوس تو ہوتا ہے لیکن دراصل کوئی حقیقت یا اصلیت نہیں ۔ یہ کائنات خدا کے سہارے سے قائم ہے اور ہر آن اپنے قیام کےلیے اسی کی محتاج ہے ۔ خدا نے چب تخلیق کا ارادہ کیا تو مرتبہ بطون ( ارادے ) میں نزول کیا ۔ اس کے بعد روح میں ، پھر عقل میں ، اس کے بعد دماغ میں۔

3 – دنیا میں رہو مگر اس سے دل نہ لگاؤ ۔ دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے مگر انہیں زندگی کا مقصد بنانا ناجائز ہے ۔ انسان کے حقیقی دشمن اس کے اندر ہیں شہوت ، غضب ، حرص ، طمع ۔ جب تک ان دشمنوں کو مغلوب نہیں کرو گے عرفان حقیقت حاصل نہیں ہو سکتا ۔ خدا بدی کا خالق نہیں جب انسان اپنے وجود کے اعلیٰ قوانین سے منحرف ہوتا ہے تو گناہ یا بدی کا ظہور ہوتا ہے ۔ انسان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ خود کو سکھی بنائے یا دکھی ۔ وہ اپنی تقدیر کا معمار خود ہے ۔ جسے خدا کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے اس میں خدا کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اور یہ صفات اطمینان ، ہمت ، خدمت خلق اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کےلیے جینا ہے ۔ عارف وہ ہے جو ہر شے میں اسی خدا کا جلوہ دیکھتا ہے ۔ توحید حقیقی یہی ہے کہ دوسرے کا خیال دل سے نکل جائے ۔- اطمینان قلب اعمال حسنہ ، عشق اور مراقبہ سے حاصل ہوتا ہے ۔ مذہب کی روح اس بات کا انکشاف ہے کہ خدا میرے اندر جلوہ گر ہے ۔ مقصد حیات خدا سے ذاتی یک جہتی پیدا کرنا ہے ۔ اس یک جہتی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔

4 – علم روحانی ہی اصل علم ہے جس سے روح کی اصلاح ہو سکتی ہے اور حق واضح ہو سکتا ہے اور اس کے حصول کا طریقہ کار تزکیہ نفس ہے ۔ اس کے بعد مراقبہ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں مکاشفہ نصیب ہوتا ہے ۔ حقیقی علم وہ ہے جس کے ذریعے سے خدا کو پایا جا سکے ۔ اگر خدا سے ملنے کے خواہش مند ہو تو خدا کے عاشقوں کی صحبت اختیار کرو اس کے سوا اس سے ملنے کا کوئی طریقہ نہیں ۔

اگر ان تعلیمات کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک تمام صوفیاء کے بنیادی تصورات میں یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ اپنیشدوں کی روح وحدت الوجود کا ۔ مختلف زبانوں میں دنیا کے مختلف صوفیاء ، حکماء ، شعراء اسی کے قائل رہے ہیں ۔ شنکر اور ان کے شارحین اس بات سے متفق ہیں  کہ یہ کائنات ہے کیا ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ایشور کی ” مایا ” ہے ۔ یعنی اس کی ابتداء ، اس کی انتہاء ، اس کی ماہیت ، اس کی نوعیت ، اس کا ظہور ، اس کا فروغ ، اس کا حسن و جمال اور اس کی بے ثباتی ۔ یہ سب باتیں فہم انسانی سے بالا تر ہیں ۔ یا یوں کہہ دیں کہ خود کائنات مایا ہے ۔یا دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ مایا ، ایشور کی قدرت ہے جس کی وساطت سے وہ ہر شے سے ظاہر ہو رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ان ساری باتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ تو بالکل واضح ہے کہ اس دور کا انسان بھی شعور رکھتا تھا اور جو وسائل اسے میسر تھے ان کے اندر رہتے ہوئے حقیقت کی تلاش کر رہا تھا ۔ مسئلہ اس کے سامنے بھی یہی تھا کہ یہ مادہ کیا ہے ، اس میں زندگی اور شعور کیسے اور کہاں سے آ جاتے ہیں اور جب انسان ختم ہوتا ہے تو یہ زندگی اور شعور کہاں چلے جاتے ہیں ۔ انہی تین سوالوں کے جوابات کےلیے وہ قریہ قریہ گھوم رہا ہے ۔ یہی سوال لے کر آج بھی انسان وہیں کھڑا ہے ۔ اس دور کے انسان نے جو جوابات دے ان سے شاید وہ خود بھی سو فیصد مطمئن نہیں تھا اس لیے معلوم تاریخ کے ہر دور میں یہ کوششیں جاری رہیں ۔ آج اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ خالق کو انسان نے خود اپنے خوف سے تخلیق کیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے ایک ماورائی ، روحانی اور فعال خدا ہی کیوں تخلیق کرنا پڑا ۔ جن ماورائی حقائق کے بارے میں اس کے پاس جوابات نہیں تھے ان ہی کےلیے ایک ماورائی خدا تخلیق کر کے وہ جوابات کیسے حاصل کر سکتا تھا ۔ وہ تو ان سب باتوں کو اپنے حواس خمسہ کے دائرے کے اندر لانا چاہ رہا تھا ۔ وہ ماورائی خدا جو خود اس کے حواس خمسہ کے دائرے میں نہیں آ رہا اسے کیسے ماورائی حقائق کا جواب دے کر مطمئن کرتا ۔ پھر جب جواب بھی وہ ا رہا ہے جو حواس خمسہ کی دائرے سے باہر ہے تو اس کا ثبوت کہاں سے ملے گا ۔ کیا میرا کہا کہ میں اس حقیقت واحدہ کو دیکھ آیا ہوں یا میں نے اسے پا لیا ہے ، یہ باقیوں کےلیے بھی حجت بن جاتا ہے کہ وہ میری بات کو قبول کریں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply