سیاست میں انٹری

2013 میں الیکشن کمپین اپنے پورے زوروں پر تھی اور تمام پارٹیاں اپنے اپنے فنانسرز کو اپنی حکومت بنانے کے بعد ایک لمبی دیہاڑی لگوانے کے خواب دیکھا کر ان سے پیسہ وصول کر رہی تھیں، اس سلسے میں کپتان کا پلڑا کچھ بھاری بھی نظر آ رہا تھا کیونکہ “بوٹ ” اس کے ہم قدم بھی تھے لیکن دوسری جانب نواز نے ایک انوکھا کھیل کھیلا، کپتان صرف اپنی گلیمر لائف کو کیش کروا رہا تھا اور اسکا ایک جلسہ ہوتا تو نواز ایک شہر شہباز دوسرے اور حمزہ تیسرے شہر جلسہ کر رہا ہوتا، مطلب ایک کے مقابلے میں تین جلسے، انہوں نے کپتان کو جسمانی اور ذہنی طور پر تھکا دیا، اور کپتان کے جلسوں میں جتنی تعداد اکھٹی ہوتی ان میں زیادہ تر جلسے کو انجوائے کرنے آتے نا کہ ووٹ دینے کے خیال سے، اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہے کہ اگر کپتان جلسے میں تقریر نا کرے تو جلسہ فلاپ لیکن اس کے مقابلے میں ن کا پلڑا بھاری۔
شنیدم ہے کے 2013 کی الیکشن کمپین میں کپتان نے دردمندوں کی مدد سے کئی ارب روپے اکٹھے بھی کیے جو کے دنیا بھر کا اصول ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے چاہنے والوں سے فنڈز اکھٹے کرتی ہیں اور الیکشن کے بعد ان لوگوں کو پے بیک بھی کیا جاتا ہے، لیکن کپتان جو کے صرف اور صرف اپنے فیم اور کرزما کو کیش کروانا چاہتا تھا شہری حلقوں میں تو ایک حد تک کامیاب رہا لیکن دیہاتی علاقوں کے ساتھ ساتھ لاہور میں بری طرح فلاپ ہو گیا، سواۓ کے پی کے میں، کے پی کے کی عوام کا ایک مزاج رہا ہے وہ ہمیشہ تبدیلی پسند کرتے ہیں اس لیے کپتان کے تبدیلی کے نعرے کو لبیک کہا اور اس صوبے میں اس کی حکومت بن گئی، لیکن باقی صوبوں میں جو حال ہوا وہ کافی برا رہا، الیکشن کے دنوں کے اگر آپ انٹرویو اور بیانات پڑھیں تو کپتان اپنی حکومت بنانے کے حوالے سے اتنا پر امید تھا کہ اس وقت کے بیانات ایک دیوتا کے بیانات لگ رہے تھے، اور ہر انٹرویو میں وہ کاغذ پر لکھ کر دینے کو تیار ہوتا تھا کے اگلی حکومت اسی کی ہو گی۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس آیا اور حکومت نون لیگ کی بن گئی جسکا غصہ اور فنانسرز کو مطمئن کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا جو کے عوام نے کپتان کی احتجاجی کمپین کے ذریعے سے دیکھا۔
اس دوران نون لیگ نے مریم نواز کو سیاست میں لانچ کرنے کی کوشش شروع کر دی لیکن وہ اس طرح کامیاب نا ہو سکے جس طرح کی ان کی خواہش تھی اور میرے جیسے عاجز کو مریم کی لانچنگ اور بلاول کی لانچنگ میں کوئی خاص فرق محسوس نا ہو رہا تھا کے اسی اثناء میں پانامہ کا شور اٹھا اور کپتان کے مشیروں نے اسکے کان میں بات ڈال دی کے مریم نواز کو ٹارگٹ کرو آوٹ کرو اور آنے والے الیکشن میں انکو اس قابل مت چھوڑو کے مریم تمہارے مقابلے میں آسکے اور تمام تر وسائل اسی کام پر لگا دیے گئے۔
لیکن مبشر لقمان، ہارون رشید اور حسن نثار جیسے جہاندیدہ مشیروں اور تاریخ دانوں نے ایک عجیب سا منظر دیکھا،کہ پی ٹی آئی جن کو گھیر گھار کر جے ٹی آئی کے سامنے پیش کرتی ہے وہ ہی عوام میں سیاسی مقبولیت پانے لگتا ہےاور یہ سلسلہ مریم نواز کی پیشی تک جاری رہا۔یار لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی کے سیاسی حریف ہیں تو عوام کے سامنے کم سے کم اسکا اور زیادہ سے زیادہ اپنا ذکر کرنا چاہیے، لیکن اس معاملے میں انصافیوں اور ان کے لیڈران نے نچ نچ کے دھرتی ہلا دی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جسکے سامنے بھی اسکے خلاف بات ہوئی اس نے کم از کم کپتان کے حریف کی بات سننا شروع کی اور 5 جولائی کو اسکا واضح ثبوت عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کئی یار لوگوں نے کپتان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ شاید اتنے اچھے طریقہ سے مریم کو سیاست میں لانچ نا کر سکتے تھے جتنا کے عمران نے بغض نواز میں مریم کو سیاست میں لانچ کر دیا۔
سب باتیں ایک طرف لیکن ایک چیز جو کے دیکھنے والی ہوگی اس الیکشن کمپین کے دوران جب عمران اپنا جلسہ کرے گا تو اسکے مقابلے میں نواز، شہباز، حمزہ، اور مریم مطلب ایک کے مقابلے میں چار جلسے اور شاید بقول کپتان کے بلاول بھی ایک آدھ جلسہ کھڑکا دے تب کی صورتحال دیکھنے والی ہوگی۔ اس بار کپتان نے کافی اچھے طریقہ سے امیدوار ڈرائی کلین کیے ہیں، اس لیے میری خواہش یہ ہے الیکشن پھنس کے اور کانٹے دار ہوں ۔ویسے میرا زرداری کو ایک مشورہ ہے کے وہ بھی بلاول کو ایک ایسی ہی جے ٹی آئی کے ذریعے لانچ کرے شاید کچھ افاقہ ہو جاۓ۔۔۔۔

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”سیاست میں انٹری

Leave a Reply