تنویر کا آوازہ۔۔محمد حمزہ حامی

شعر و ادب کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گا۔ بعض اوقات زبانیں تغیراتِ وقت سے معدوم ہو جاتی ہیں لیکن ان میں ہونے والی تخلیقات اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں۔ شعر اگر واقعی شعر ہو تو وہ اپنا تاثر کسی نہ کسی رنگ میں برقرار رکھتا ہے۔ شاعری ایک ایسا الہامی کلام ہے جو اپنے اندر جہانِ حیرت رکھتا ہے۔ یہ خدا کی خاص عطا ہے جو حساس دلوں پر جلوہ گر ہوتی ہے اور نئے رنگ، نئی صورتیں تجسیم کرتی ہے۔ شاعری تجربات و مشاہدات سے تخلیق پانے والے شعورِ انسانی کے اس مرقعے کا نام ہے جو پڑھنے اور سننے والے کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے اور تفکر کے نئے در وا ء کرتا ہے۔
راشد علی مرکھیانی بھی ایک ایسا البیلہ شاعر ہے جس نے بہت کم وقت میں اپنی شاعری کا لوہا منوایا ہے۔ جس کی شاعری ایک نئی تنویر کا آوازہ ہے جو کرب و نارسائی سے کشید ہو کر، خیال و فکر کے سانچے میں ڈھل کر اور شعری پیراہن سے آراستہ ہو کر سماعتوں سے ٹکراتا ہے، جس کی گونج مسحور کن تانوں کی طرح تادیر دل و دماغ کے دریچوں میں گونجتی رہتی ہے۔
راشد نئے خیالات اور نئے لہجے کا توانا شاعر ہے اس کا اسلوب بےساختگی اور وفورِ جذبات سے تشکیل پاتا ہے۔ مضامین کا تنوع، خیال کی ندرت اور شدتِ احساس سے مزین اشعار قاری کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔ درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں:
خوشی سے کوئی وطن چھوڑ کر نہیں جاتا
پرندے وقتِ مصیبت اڑان بھرتے ہیں
یہ کیسی اذیت ہے اداسی نہیں جاتی
یہ کیسا بھنور ہے کہ ابھرتا ہی نہیں میں
میں اذیت کے صحرا کا درویش ہوں
اے اداسی پلٹ کر کہاں جائے گی
ہم کبھی وصل کے پیمان نہیں باندھیں گے
ایک دوجے سے بچھڑ جائیں گے آسانی سے
بنانے والے مرا نقص تو بتا دیتے
میں بنتے بنتے کہیں درمیان ٹوٹ گیا
ذہن الفاظ کے پیچھے ابھرنے والی تصویروں میں ایسا کھو سا جاتا ہے کہ عشق و محبت اور ہجر و وصال اپنی واردات معلوم ہوتے ہیں۔
راشد زبان و بیان کے ادب آداب اور لفظ کی بنت سے پوری طرح واقف ہے، مصرع تراشنے اور اسے مکمل شعر بنانے پر قدرت رکھتا ہے۔ آپ کے اشعار سہل بیانی، تغزل، اشارہ و کنایہ، استعارہ، تلمیحات و تراکیبات اور جمالیاتی حسن سے مزین ہیں۔ درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں:
تمہارا لمس ملا ہے تو جان پایا ہوں
پرانے زخم کے کیسے نشان بھرتے ہیں
ہوا کے کان بھر دیئے گئے تھے اولین شب
چراغ پا تھی روشنی وجود کی تلاش پر
گرد بیٹھی تو نظر آئے گا رستے کا فسوں
نیند ٹوٹی تو کسی خواب کا رونا ہو گا
قافلہ محبت کا کیوں رکے سمندر میں
ہم بنا کے چلتے ہیں راستے سمندر میں
تجھ سے تو اک چراغ جلایا نہیں گیا
میں نے ہوا بھی ساتھ جلا لی ہے دوستا
قفس کی ریت نرالی ہے کون سمجھے گا
قدم قدم پہ ہے زنجیر ڈال کر چلنا
وقت کا پہیہ دوڑ رہا ہے، سورج ڈوبنے والا ہے
تونے کتنے دیپ بنائے، رات کی کیا تیاری کی؟
فکری گھٹن کے اس دور میں راشد محبت کے پیامبر ہیں۔ جہاں بہت سوں کی شاعری ذاتی عناد کی گرد سے اٹی ہے وہیں محبت راشد کی شاعری کا موضوعِ خاص ہے۔ آپ نے محبت کو نئے زاویوں اور اچھوتے انداز سے باندھا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
غلط نہ جان ہمیں شاعری نہیں آتی
کہ ہم تو صرف محبت کو دان بھرتے ہیں
تمہیں یقینِ محبت نہیں ہے، حیرت ہے
خدا کا حکم محبت ہے، کُن محبت ہے
اک صدائے کُن سنائی دی مجھے
پھر محبت آخری آواز تھی
میں نے پائی ہے اداسی کی سزا تحفے میں
ایک ناکام محبت کی طرف داری میں
میں خلد زاد تھا پھر پڑ گیا محبت میں
زمیں پہ ہانک کے لایا مجھے پری کا وجود
فی زمانہ جب بہت سے نوجوان شعرا کی شاعری ابھی عورت کے خد و خال سے باہر نہیں نکلی وہیں راشد کی شاعری میں فکری، تنقیدی اور تمثیلی موضوعات کے ساتھ ساتھ نعتیہ رحجان بھی پایا جاتا ہے جو یقیناً ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
راشد کے نعتیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
تم پہ لاکھوں کروڑوں درود و سلام انبیاء کے امام
تم جہاں تھے وہیں سے دکھائی دیا، سب سے روشن دیا
دھرتی پہ ایک نور تریسٹھ برس رہا
اس حسنِ بے مثال کی اب تک ہے روشنی
پھر ایک روشنی نے سیدھا راستہ دکھا دیا
میں پھر رہا تھا دربدر درود کی تلاش میں
روشنی غار سے نکلی تو نظر آیا تو
ورنہ ہم سا کوئی زندیق نہیں ہونا تھا
بہ فیضِ عشق ہے معراج ورنہ
زمین سے عرش تک رستہ نہیں تھا
آنکھ دی ہے تو بصارت بھی عطا کر مجھ کو
میں بھی دیکھوں ترا جلوہ کہ نظر آتا ہے
گو کہ راشد کی تمام شاعری فکری تجربات اور شعری روایت کا عمدہ نمونہ ہے جس کا موازنہ ممکن نہیں، لیکن میرے نزیک راشد کا ایک شعر جو پوری کتاب پر حاوی نظر آتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
ماں کی آنکھیں رستہ تکتی رہتی ہیں
بچے کاروبار کے پیچھے بھاگ پڑے
راشد علی مرکھیانی کی شاعری قوسِ قزح کا آٹھواں رنگ ہے۔
راشد کیلئے ڈھیروں دعائیں پروردگار سدا کامیاب و کامران رکھے اور شعری افق پر یونہی جگمگاتے رہیں، دوست احباب اس کتاب سے ضرور استفادہ کریں یہ آپ کو مایوس نہیں کرے گی بلکہ ایک نئے ذائقے سے آشنا کرے گی اور آپ کی سوچ اور فکر کو نئی سمت سے متعارف کروائے۔

Facebook Comments

محمد حمزہ حامی
شاعر ، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply