ینگ لیڈی ڈاکٹرز اور حکومتی مشینری

انسانیت کا فطری اصول یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کے گھر جائے تو پہلے اجازت حاصل کرے ۔چنانچہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں تمام مومنین کو حکم دیا “اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے کے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو، اور گھر والوں پر سلام نہ کر لو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو ۔ اور اگر ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤ تو اندر نہ جاؤ جب تک تمہیں اجازت نہ ملے”۔ (سورہ نور،آیت : ۲۷ ۔ ۲۸) اسی آیت میں آگے چل کر اللہ نے حکم دیا کہ “اگر گھر والے اجازت نہ دیں تو واپس لوٹ جاؤ”علماء کرام نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر گھر کے مکین آپ کو اندر آنے کی اجازت نہیں دیتے تو واپس چلے جائیں اور برا بھی مت منائیں، ہو سکتا ہے گھر والے کسی مجبوری کے تحت آپ کو اندر نہ بلا سکے ہوں. اسی طرح اگر کسی کے دروازے پر جا کر آواز دی اور اس نے کہا: کون؟ تو اس کے جواب میں صرف یہ نہ کہے کہ ’میں‘ کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے اس جواب کو ناپسند فرمایا ہے بلکہ جواب میں اپنا نام بتائیں کیونکہ ’میں‘ کا لفظ تو ہر شخص اپنے آپ کو کہہ سکتا ہے ۔ (ترمذی، حدیث: ۲۷۱۱) جان پہچان نہ ہونے کی صورت میں مکمل تعارف پیش کریں۔
اسی طرح کسی کے گھر میں بلا اجازت جھانکنا بھی منع ہے کیونکہ گھر کے اندر عورتوں پر پردے کا اہتمام کرنا ضروری نہیں ۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا “جس نے اجازت سے پہلے پردہ ہٹا کر مکان کے اندر نظر کی اس نے ایسا کام کیا جو اس کے لئے حلال نہ تھا اور اگر (گھر والوں میں سے) کسی نے (ایسا کرنے والے کی) آنکھ پھوڑ دی تو اس پر کچھ گناہ نہیں اور اگر کوئی شخص ایسے دروازے پر گیا جس پر، پردہ نہیں اور اس کی نظر گھر والے کی عورت پر (بلا قصد) پڑ گئی تو اس کی غلطی نہیں۔ (ترمذی،حدیث:۲۷۰۷) دیکھیں کہ بغیر اجازت کسی کی رہائش گاہ میں نظر کرنا اتنا سنگین جرم ہے کہ مجرم کی آنکھ بھی پھوڑی جا سکتی ہے.
اسی طرح ترمذی شریف کی ایک اور روایت میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا “کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت حاصل کئے نظر کرے اگر نظر کرلی تو داخل ہی ہو گیا۔”
قارئین میں نے کسی کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کے قرآن و حدیث سے چند اصول و ضوابط نکال کر دکھائے ہیں، لیکن قربان جائیے “اسلامی جمہوریہ” پاکستان، کی سول بیوروکریسی پر.. جہاں نہ اسلام ہے نہ جمہوریت. جسے دنیا کی ناکام اور نااہل ترین بیوروکریسی کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا. یہ کہانی شروع ہوتی ہے اسسٹنٹ کمشنر ساہیوال کے ایک بھونڈے لیٹر سے. آپ اس لیٹر کے مندرجات پر غور کریں. میں نے اسلام آباد سیکیورٹی پولیس میں بھی نوکری کی ہے، میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سیکرٹریٹ میں بھی دو سال رہا، اس دوران ہزاروں سرکاری و غیر سرکاری لیٹرز اور فائلیں میری نظر سے گزریں لیکن میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ قابل شرم نوٹیفیکیشن نہیں دیکھا. یقین نہیں آتا مقابلے کے امتحان میں نمایاں پوزیشن لینے والے ذہین فطین اسسٹنٹ کمشنر نے الفاظ کیسے استعمال کیے ہیں.
پہلے تو اے سی صاحب ساہیوال میڈیکل کالج کے گرلز ہاسٹل میں رات ساڑھے آٹھ بجے زبردستی گھس گئے، پھر ہاسٹل سے درجن بھر presentable لیڈی ڈاکٹرز کو ساہیوال کول پاور پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعلٰی پنجاب اور ان کے ہمراہ آنے والے کچھ وی وی آئی پی لوگوں کے استقبال کے لئے بطور Usher منتخب کیا ان کے نام نوٹ کیے اور ایک انتہائی قابل مذمت نوٹیفکیشن جاری کردیا. انہوں نے نوٹیفکیشن میں بھی لفظ Usher ہی استعمال کیا. آپ گوگل کھولیں اس لفظ کا مطلب دیکھیں، آپ کا سر بھی شرم سے جھک جائے گا، پڑھی لکھی خوبرو لیڈی ڈاکٹرز کو بطور دربان استعمال کرنا ہر طرح سے قابل مذمت ہے.
چونکہ معاملہ ڈاکٹرز کا تھا تو صرف ڈاکٹرز نے ہی احتجاج کیا، باقی ماؤں بہنوں کے رکھوالے ستو پی کر سوتے رہے. میرے نزدیک تو یہ معاملہ لیڈی ڈاکٹرز سے زیادہ عورت کی تذلیل کا ہے. حکومتی مشینری نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، خواتین کو ڈرا دھمکا کر زور زبردستی سےنوٹیفکیشنز کے زور پر، پروٹوکول ڈیوٹی پر مامور کیا گیا، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے بھرپور احتجاج کیا، ڈان نیوز نے بھی خبر اٹھائی، وزیر اعلٰی نے حسب معمول “واقعے کا نوٹس لے لیا”یوں ایک دن کے اندر اندر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی گئی اور معاملہ دبا دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے پچھلے دس سال میں کتنے نوٹس لیے ہیں؟ کتنی انکوائری کمیٹیاں تشکیل دی ہیں؟ ان کمیٹیوں نے کتنی مراعات، کتنا ٹی اے ڈی اے، کتنا بجٹ استعمال کیا ہے؟ کتنے مجرموں کی نشاندہی کی گئی؟ کتنوں کو سزا مل سکی؟ افسوس صد افسوس کہ اس ملک میں کوئی پوچھنے والا نہیں. گورننس کا معیار یہ ہے کہ دس کروڑ آبادی کے صوبے میں جلنے والوں کے لیے صرف 72 سپیشل بیڈ ہیں. سانحہ بہاولپور میں ابھی تک دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اورینج لائن، میٹرو لاہور ،اسلام آباد اور ملتان میٹرو پر لگ بھگ چار سو ارب روپے لگائے گئے، اگر برن ہسپتال بناتے تو چار سو ارب روپے میں بین الاقوامی معیار کے دس برن ہسپتال بنا سکتے تھے. لیکن عوامی مسائل کے حل کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔حیدر اختر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے چئیرمین ہیں، انہوں نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس کے چیدہ چیدہ نکات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.
۱- صوبہ بھر کے ہسپتالوں کا انتظامی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے،حالیہ سانحہ بہاولپور نے حکومتی دعوں کی قلعی کھول دی ہے۔ نشتر ہسپتال میں داخل شدہ 66 مریضوں میں سے 50 وفات پا چکے ہیں۔
۲- سانحہ بہاولپور میں 200 سے زیادہ اموات حکومتی ہسپتالوں کی انتظامیہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔
۳۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں پر تشدد کی بڑی وجہ یہاں سہولیات کا فقدان اور معیاری ادویات کا ناپید ہونا ہے. ڈاکٹرز پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس پر محکمہ صحت کی طرف سے تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
٤- ساہیوال ہسپتال میں اسسٹنٹ کمشنر کے خواتین کے ہاسٹل میں گھس کر اُن کو سیاستدانوں کے استقبال پر مجبور کرنے کے شرمناک واقعے کے بعد بھی کوئ قدم نہیں اٹھایا گیا۔
٥. وائی ڈی اے اسسٹنٹ کمشنر کو برطرف کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ 24 گھنٹے میں اگر اسسٹنٹ کمشنر کو برطرف نا کیا گیا تو تحریک چلائیں گے۔
٦. سیکرٹری برائے صحت، صحت کے نظام کو تباہ و برباد کرنے کے ذمہ دار ہیں، اُن کو فی الفور کرسی سے ہٹا کر قلمدان کسی ماہر صحت کو سونپا جائے۔
ان گزارشات و سفارشات سے کس کو انکار ہو سکتا ہے؟ ینگ ڈاکٹرز کے جائز مطالبات بھی نہیں مانے جاتے اور پھر جب ڈاکٹرز ہڑتال کریں احتجاج کریں تو مین سٹریم میڈیا کو بھی ریٹنگز ملتی ہیں اور حکومت کے کان پر بھی جوں رینگتی ہے. مگر لیڈی ڈاکٹرز سے بدتمیزی کی جائے ان کی بےحرمتی کی جائے تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا. میں حیدر اختر صاحب سے بھی گزارش کروں گا کہ اسسٹنٹ کمشنر والے معاملے کو افسر شاہی کی فائلوں میں دفن نہ ہونے دیں، اور آپ سب قارئین سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ ہاسپٹلز اور ڈاکٹرز کے مسائل سب سے پہلے ہنگامی بنیادوں پر حل کریں ورنہ آپ بھی کسی فٹ پاتھ پر یا ہسپتال کے کوریڈور میں ایڑیاں رگڑتے رہیں گے..
وما علینا الا البلاغ ۔۔۔۔

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply