• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جدید مولویوں کے خوف سے سہمی ہوئی سائنس۔۔ارشد غزالی

جدید مولویوں کے خوف سے سہمی ہوئی سائنس۔۔ارشد غزالی

جدید مولویوں کے خوف سے سہمی ہوئی سائنس۔۔ارشد غزالی/ “جب بھی کوئی نئی ایجاد یا دریافت ہو ،آج کل کے جدید مولوی اس کی تصدیق میں قرآن پاک سے آیتیں نکال کر لے آتے ہیں کہ یہ بات تو قرآن کریم نے صدیوں پہلے بتا دی تھی, بھائی !اگر صدیوں پہلے بتادی تھی تو   دنیا کے اربوں مسلمانوں میں سے کوئی اس آیت کی مدد سے سینکڑوں برسوں میں وہ دریافت کیوں نہیں کر پایا, قرآن اور سائنس دو الگ چیزیں ہیں اسے الگ ہی رکھنا چاہیے, سائنس تو بدل جاتی ہے کل تم اپنا دین بھی بدل دو گے”؟ کسی محفل میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کی اپنے دوست سے بحث سن کر حیرانگی ہوئی جو شاید مسلمانوں کے ابتدائی عروج کے دور سے ناواقف تھے یا پھر لبرل سائنسی سوچ سے کچھ زیادہ ہی متاثر بھی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں دو طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں ایک وہ لوگ ہیں جو ہر سائنسی دریافت اور ایجاد کو زبردستی مسلمان کرنے پر تلے رہتے ہیں اور دوسرا طبقہ سائنس کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کے مخالف ہے, اگرچہ دونوں طبقات اپنے موقف کے حق میں دلائل رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب اور سائنس دو مختلف چیزیں ہیں, مسلمان جنت, دوزخ, حیات بعد الموت, فرشتے, جنات , ارواح اور دیگر ایسے کئی امور پر ایمان رکھتے ہیں جو خالق ِ کائنات نے اپنی کتاب مقدس قرآن حکیم میں بیان فرمائے ہیں جب کہ یہ تمام موضوعات سائنس کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتے, سائنس تجربات اور مشاہدات کا علم ہے جنھیں آزادانہ طور پر دوہرایا جا سکے جب کہ روح, فرشتے یا حیات بعد از موت وغیرہ کا تعلق خالصتاً ایمان بالغیب سے ہے ،تو پھر دونوں طبقات میں جھگڑا کس بات پر ہے اور کیوں ہمیشہ ایک دوسرے کی مخالفت میں کمربستہ نظرآ تے ہیں۔؟

ہمارے ہاں ایک عمومی غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ سائنس بدل جاتی ہے, اس کی تھیوریز اور نظریات وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے ،درحقیقت سائنس مظاہر فطرت کا نام ہے جو ہمیشہ اپنے قوانین کے پابند رہتے ہیں، لہذا سائنس کے بدلنے کا کوئی سوال نہیں, بدلتا صرف انسان کا فہم, اس کے سمجھنے کا لیول اور استعداد ہے, سائنس کے اصول تخلیق نہیں کئے جاتے بلکہ دریافت ہوتے ہیں اور دریافت وہی چیز ہوتی ہے جو پہلے سے موجود ہو ،اس لئے سائنس کبھی نہیں بدلتی بلکہ اسے ہمارا سمجھنے کا فہم اور ہماری ذہنی استعداد بدلتی ہے۔

سرسید احمد خان کا ایک منطقی مقدمہ ہے کہ یہ کائنات اللہ تعالی کا فعل ہے اور قرآن کریم اللہ تعالی کا قول ہے ،چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ  کے قوم و فعل میں تضاد ممکن نہیں ۔اس لئے کائنات اور قرآن میں بھی تضاد ممکن نہیں ہے, قرآن کریم سائنس کی کتاب نہیں ہے مگر اس میں کئی سو الات سائنس سے متعلق ہیں, مختلف مفسرین نے ان آیات کے مختلف مطالب اور تفاسیر بیان کی ہیں ،آج کے دور میں اگر کوئی شخص ان آیات مبارکہ کو موجودہ سائنسی نظریات اور دریافتوں پر منطبق کرتا ہے تو سائنس کو مذہب سے جوڑنے کے مخالف طبقات کے علاوہ کچھ مذہبی حلقے بھی اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں ،جب کہ قرآن کریم کسی مخصوص دور یا حالات کے لئے نہیں ہے ،بلکہ قرآن کریم کا اعجاز ہی یہ ہے کہ وہ قیامت تک کے لئے راہِ ہدایت ہے اور ہر دور میں اس کے معارف دنیا کے سامنےآ تے رہیں گے۔

جو مسلمان اس بات سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ آج اگر ہم کسی قرآنی آیت کی سائنسی توجیح پیش کرتے ہیں اور وہ آنے والے کل میں سائنسی نظریات کے تبدیل ہونے کی وجہ سے غلط ثابت ہوتی ہے تو قرآن کریم پر اعتراض اٹھیں گے جبکہ حقیقت میں یہ بات قرآن پاک اور عربی زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے, اسکی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک کثیر المنزلہ عمارت سامنے ہو اور اس عمارت کا چند افراد نظارہ کر رہے ہوں ۔ایک فرد منازل کے اعتبار سے اس عمارت کو دس حصوں میں تقسیم کرتا ہے کہ یہ دس منزلہ عمارت ہے ،دوسرا فرد پورشن کے حساب سے اسے تقسیم کرتا ہے کہ ہرمنزل میں چونکہ دو پورشن ہیں اس لئے عمارت بیس حصوں پر مشتمل ہے, ایک تیسرا فرد عمار ت میں استعمال ہونے والی اینٹوں کو عمارت کی اکائی قرار دیتے ہوئے اسے لاکھوں حصوں میں تقسیم کردیتا ہے مگر کلاسیکل فزکس کا سٹوڈنٹ اسے ایٹمز کا مجموعہ قرار دے کر ناقابل شماربھی قرار دے سکتا ہے جب کہ اس سے بھی آگے چلے جائیں تو کوانٹم فزکس کا سٹوڈنٹ اسے مزید قابل شمار قرار دے سکتا ہے جب کہ کائناتی ڈائمنشنز کے مظہر کو سمجھنے والا اسے لاشئی یا “نتھنگ” محض ایک چارابعادی اپسی استمراری کیفیت یا ھولوگرافک الیوژن قرار دے سکتا ہے اور وہ جدید اسٹیبلشڈ سائنس کے حساب سے غلط بھی نہیں ہوگا مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مفسرین کی تفاسیر اور ترجمے کو نظرانداز کر کے عربی زبان, قواعد و گرائمر سے ناواقف ہوتے ہوئے محض اردو ترجمہ پڑھ کر ان آیات مبارکہ کو سائنسی دریافتوں پر چسپاں کرنے کی کوشش کی جائے۔

مفسرین کی تفاسیر, آیت کی شان نزول, عربی الفاظ, متن, موضوع اور گرائمر کو سمجھے بناء جب محض قرآن کریم کی مخصوص آیت مبارکہ کے اردو ترجمے کو کسی سائنس دریافت یا نظرئے پر منطبق کیا جاتا ہے تو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور قرآن کریم اور سائنس میں مطابقت پیدا نہیں ہوتی، مثال کے طور پر قرآن کریم میں اللہ تعالی سات آسمانوں کا ذکر فرماتا ہے اور اس کے لئے عربی لفظ “سماء” استعمال ہوا ہے جس کا اردو ترجمہ  آسمان کیا جاتا ہے, لنڈے کے دیسی سائنسدان اس پر شور مچاتے ہیں کہ سائنس میں آسمان نامی کوئی چیز نہیں ہے ،نہ  سات آسمانوں کا وجود ہے اور یہ بات حقیقت بھی ہے اب کچھ کم فہم مسلمان سات آسمانوں کو زمینی فضاء کی سات لیئرز سے تشبیہ  دیتے ہیں اور کچھ اس کی دیگر وضاحتیں کرتے ہیں، مگر درحقیقت “سماء” کا مطلب عربی میں بلندی ہے اور بلندی کی کوئی حد نہیں ،ہمارے پاس کوئی ایسی ٹیکنالوجی یا علم نہیں جس کی مدد سے ہم اس کائنات سے باہر نکل سکیں, ہم جہاں تک اپنی آنکھوں یا دوربین کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں وہ ہماری نسبت سے بلندی ہی ہے خواہ کائنات کا آخری سِرا ہی کیوں نہ  ہو, اب سات آسمانوں سے مراد سات مختلف ڈائمینشمز ہیں یا سات الگ الگ کائناتیں جو اس موجودہ کائنات سے باہر بھی ہوسکتی ہیں اس بارے میں فی الوقت ہمارے پاس کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔

دوسری طرف قرآن کریم کی بہت سی آیات مبارکہ ایسی ہیں جن میں اللہ تعالی نے چودہ سو سال قبل جو فرمایا سائنس اسے جھٹلاتی آئی، قرآن نے کہا ،کائنات ایک انتہائی مختصر وقت میں وجود میں آئی ،اللہ پاک نے “کُن” کہا اور “فیکون” یعنی وہ اسی وقت ہوگئی اگر فیکون کا مطلب یہ نہ  بھی لیں کہ “ہونا شروع ہوگئی” تب بھی آج انفلیشن تھیوری یہ ثابت کرچکی ہے کہ ایک سیکنڈ کے دس کی طاقت منفی بتیس سے بھی مختصر وقت میں ساری کائنات انفلیٹ ہوکر موجودہ شکل میں آگئی  تھی، یہ کتنا مختصر ترین وقت ہے اس کا تصور کرنا ہی عقل سے بالاتر ہے ،ایسے ہی تمام جانداروں کی پانی سے پیدائش, کائنات کا پھیلنا, لوہے کا “اتارا” جانا اور بگ بینگ سمیت بہت سے سائنسی مظاہر ہیں جو قرآن کریم نے صدیوں قبل بیان فرمائے اور موجودہ سائنس آج اس مقام تک پہنچ سکی کہ انھیں دریافت کر سکے حتی کہ قرآن کریم اس زمین سے ہٹ کر کائنات میں زندگی کے موجود ہونے, آسمان میں راستے ہونے اور کائنات کے اختتام سمیت بہت سے مظاہر تک کی پیشگوئی بھی کرتا ہے,

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مسلمان قرآن سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے اور آیات مبارکہ پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے ؟۔۔تو یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب ہی قرآن کریم اور دین سے دوری اور قرآن کریم کی آیات مبارکہ پر غور و فکر نہ  کرنا ہے, ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے اصل کی طرف لوٹ آئیں تاکہ دنیا وآ خرت میں سرخرو ہوسکیں اور دنیا کی تعمیر و ترقی میں قائدانہ کردار ادا کر سکیں۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply