کتنے ماتم ، کتنے کالم؟

ہزارگنجی سے لے کر کوسٹل ہائی وے تک دشمن یکسو ئی سے حملہ آور ہے، سوال یہ ہے ہمارا انتشارِ فکر کب ختم ہو گا؟ طریقہ واردات کو سمجھیے۔ پہلے دشمن اپنے مسلح کارندوں کے ذریعے حملہ کرتا ہے ، پھر اس کے فکری کارندے حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ یہ پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ مقتول پاکستانیوں کو علاقائی ، مسلکی اور گروہی عنوان سے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے اس طوفان کی لپیٹ میں سارا پاکستان آیا ہے۔ کون ہے جس تک یہ آگ نہیں پہنچی؟ لیکن یہ کارندے مقتولین کی شناخت پاکستانی کے عنوان سے نہیں شیعہ ، سنی ، ہزارہ ، پشتون اور پنجابی کے عنوانات سے کرتے ہیں۔جس قومیت کے صحن میں لاشہ پڑا ہو یہ اس کے ہاتھ میں نفرت کا پرچم تھمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس ملک میں تمہارا تو کسی کو خیال ہی نہیں۔منافرت کو فروغ دینے کے لیے کہا جاتا ہے پنجابیوں کے علاوہ یہاں کوئی محفوظ نہیں۔تمہارا تو کسی کو خیال ہی نہیں۔ تم تو یہاں پیدا ہی مرنے کے لیے ہوئے ہو۔ پھر جب دہشت گردی کی آگ کسی پنجابی کو لپیٹ میں لے لیتی ہے توان فکری کارندوں کی نفرت اور ہمارا انتشار فکر بغل گیر ہو جاتا ہے۔ آواز لگائی جاتی ہے دیکھا پنجابیو ، جب ہزارے کے لوگ مرے تھے بڑا شور مچا تھا ۔ اب تمہارے مرے ہیں تو کوئی تمہارے ساتھ رونے والا بھی نہیں۔ پھر اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ پہلے آواز اٹھتی ہے قاتل پکڑے کیوں نہیں جاتے ۔ جب اس آواز میں غم و غصہ شامل ہو جاتا ہے تو پھر خبث باطن کا نیا کھیل شروع کر دیا جاتا ے اور دشمن کی اس دہشت گردی کا الزام بین السطور اور کھلے بندوں اپنے ہی ریاستی اداروں پر عائد کر دیا جاتا ہے۔کسی بھی ریاست کو اندر سے تباہ کرنے کا یہ گھنائونا ترین کھیل ہے جو پاکستان میں پوری آزادی سے کھیلا جا رہا ہے ۔ایک وقت آئے گا ریاست اور سماج کو سمجھ آ جائے گی کہ این جی اوز نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا ہے لیکن مجھے ڈر ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ کھلا راز ہے کہ بلوچستان میں بھارت اپنا کھیل عرصے سے کھیل رہا ہے۔ سی پیک کے ساتھ اس کھیل کی سنگینی میں شدت آ گئی ہے۔ افغان حکومت بھی بھارت کے ہمرکاب ہے۔بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل کھیل کر دشمن جو حاصل کرنا چاہتا ہے وہ جاننے کے لیے بھی کسی آئن سٹائن کو بلانے کی ضرورت نہیں۔پاکستان کی سلامتی تو نشانے پر ہے ہی فوری طور پر یہ چین کو دیا جانے والا پیغام ہے کہ پاکستان کا یہ صوبہ سرمایہ کاری کے لیے موزوں ہے نہ سی پیک کے لیے۔اجیت دول کے ’’ جارحانہ دفاع‘‘ کی ڈاکٹرائن بھی یہاں بروئے کار آ رہی ہے۔لیکن تماشا یہ ہے کہ جب جب دشمن دہشت گردی کرواتا ہے ، این جی اوز میں بیٹھے فکری کارندے میدان میں اتر آتے ہیں۔ پہلے لاشوں کو قومیت اور تعصب کی بنیاد پر شناخت کیا جاتا ہے پھر ریاست ہی کو سینگوں پر لے لیا جاتا ہے۔ ایسی جارحانہ مہم چلائی جاتی ہے کہ اچھے خاصے معقول لوگ بھارت کا نام لینے سے کتراتے ہیں اور مروجہ فیشن میں صرف اپنے اداروں پر انگلی اٹھائی ہے۔ دشمن پراکسی لڑتا ہے تو ان کارندوں کے نزدیک یہ اس کا حق ہے۔ البتہ پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ خطے میں اللہ میاں کی گائے بن کر رہے۔ امریکہ طالبان کوانگیج کر لے تو یہ درست ہے البتہ پاکستان سے ان کارندوں کا مطالبہ ہے کہ وہ تمام عسکری گروہوں کے خلاف محاذ کھول کر داخلی طور پر ایک جہنم آباد کر لے۔ اگر پاکستان حکمت کے ساتھ چلتا ہے اور تمام گروہوں کے ساتھ بیک وقت نہیں لڑتا تو پھر کھیل تیار ہے۔ دہشت گردی کی کارروائی بھارت کرے گا یا افغان حکومت لیکن شور مچ جائے گا کہ دہشت گردی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے سب عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ یعنی لوگ بھی ہمارے مریں گے اور کٹہرے میں بھی ہم کھڑے ہوں گے۔لاشے بھی ہم اٹھائیں گے اور فرد جرم بھی ہم پر عائد ہو گی۔ شہریوں کا دفاع بلاشبہ ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ اس میں غفلت ہو تو ضرور باز پرس ہونی چاہیے۔لیکن جب تین چار دشمن ملک اپنے پراکسیز کے ساتھ آپ پر چڑھ دوڑے ہوں اور ان کے مقابلے میں ہزاروں جوانوں نے وطن کے دفاع میں جانیں قربان کر دی ہوں ایسے میں دشمن کا نام ہی آپ کے ہونٹوں پر نہ آئے اور آپ کے تیروں کا رخ اپنے ہی اداروں کی جانب ہو تو یہ سوال پیدا ہونا لازمی امر ہے کہ آپ کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ این جی اوز کو اتنی ساری ڈونیشنز کون کون سا ملک دے رہا ہے ، کیوں دے رہا ہے ، ان کا ایجنڈا کیا ہیِ ۔ کیا ان پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود ہے؟کیا وجہ ہے ہمارے ملک کے دانشوروں کی اکثریت این جی اوز کے دھندے سے وابستہ ہے؟کوئی ہے جو ان سوالات پر غور کر سکے؟جو یہ دیکھ سکے کہ کون سے دانشور صاحب کس ملک کے کس ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں اور پراجیکٹ کے لیے کتنی رقم ہتھیا چکے ہیں اور کتنی مزید رقم کے دست سوال دراز کیے ہوئے ہیں؟ بھارت اور افغان حکومت کا کھیل جاری ہے۔ این جی اوز میں بیٹھے ان کے فکری کارندے اس کھیل کا اہم حصہ ہیں۔دشمن حملہ کرواتا ہے اور یہ کارندے بحث کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں۔بجائے اس پر بات کرنے کہ بھارت کو جواب کیسے اور کہاں دیا جائے ہم حساب کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ ہزارے والے مرے تو کس کس نے مذمت کی اور پنجابیوں کا قتل ہوا تو کس کس نے اظہار افسوس کیا۔ دشمن ہمیں مارے جا رہا ہے اور ہم اس کے ساتھ دوٹوک بات کرنے کی بجائے بیٹھ کر صرف اس حساب میں مصروف ہیں کہ کس کے قتل پر کتنے مذمتی بیانات دیے گئے اور کتنے کالم شائع ہوئے۔بھارت کے پڑوس میں امن سے رہنا ہے تو نہ صرف روایتی عسکری قوت چاہیے بلکہ پراکسی کے میدان میں بھی اتنا طاقتور ہونا ہو گا کہ اس کی شہہ رگ نہ دبا سکیں تو بوقت ضرورت اس کا بازو ضرور مروڑ سکیں۔ فالٹ لائنز ہمارے ملک میں ہیں تو بھارت میں بھی بہت ہیں۔دو ہی راستے ہیں:بھارت کے ساتھ اس کی زبان میں بات کر لیں۔ ورنہ پھر لاشوں پر بیٹھ کر حساب کرتے رہیں کہ کس علاقے کے مقتولین کو رونے والے کم تھے اور توازن قائم رکھنے کے لیے ابھی کتنے بین ، کتنے ماتم، کتنے بیانات اور کتنے کالم مزید درکار ہیں۔asif

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply