کینسر (72) ۔ اونکوجین/وہارا امباکر

کینسر کے وائرس کی تلاش کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔ سپیشل وائرس کینسر پروگرام ایک وائرس بھی تلاش نہیں کر پایا تھا۔ اگر ایسے وائرس موجود نہ تھے تو پھر کینسر کا کوئی پرسرار مکینزم تھا۔ جس طرح پنڈولم کبھی وائرس کی سمت میں تھا، اب اسی تیزی سے اس کے مخالف چلا گیا۔
“اڑن طشتریاں، قبرستان کا بھوت، برفانی انسان اور انسانی کینسر کا وائرس۔ ان چار چیزوں کے بارے میں کہانیاں تو سنی اور سنائی جاتی ہیں لیکن یہ سب نظر نہیں آتے۔ یہ ذہن کے تخیل ہیں”۔ میڈیکل ورلڈ نیوز نے 1974 میں لکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیمن نے یہاں پر ایک اور بہت جراتمندانہ تصور پیش کیا۔ اور اس بار بھی ان کے پاس کوئی خاص شواہد نہیں تھے۔ “ریٹرووائرس کے شکاری پیغام اور پیغام بر میں کنفیوز ہو گئے تھے۔ روس سارکوما وائرس وائرل جین کو خلیات میں داخل کر کے کینسر کا موجب بنتا ہے لیکن لازمی نہیں کہ جینیاتی تبدیلی وائرس سے ہی ہو۔ وائرس صرف ایک پیغام بر ہے۔ کینسر کی پیدائش کا سبب اس کا لایا گیا پیغام ہے۔ اور یہ کہیں سے بھی آ سکتا تھا۔ ہمیں نیا سوال پوچھنا ہے۔ وہ وائرل جین کیا ہے جس کی وجہ سے خلیہ کے تقسیم میں نقص پیدا ہوتا ہے؟ اور یہ جین خلیے میں اندرونی تبدیلی کیسے لاتی ہے”۔
خوش قسمتی سے RSV بہت سادہ وائرس تھا جس کے صرف چار جین تھے۔ اور محققین اس جین تک پہنچ گئے جو کینسر کا سبب بنتے تھی۔ اس کو سارک (src) کہا گیا۔ (یہ سارکوما کا مخفف تھا)۔
ٹیمن کے معمے کا یہ جواب تھا۔ ووگٹ اور ڈیوسبرگ نے یہ تجربہ کر کے دکھایا کہ جب وائرس میں اس والی جین کو غیرمتحرک کر دیا جائے تو پھر یہ بے ضرر ہو جاتا تھا۔ سارک وہ جین تھی جو نارمل خلیے میں کینسر کرتی تھی۔ اس کو اونکوجین کہا تھا۔ ایسی جین جو کینسر کا سبب بننے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کولاریڈو یونیورسٹی میں رے ایرکسن نے سارک کے فنکشن کا مزید پتا لگا لیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ یہ جین معلوم سے ہٹ کر ہے۔ یہ ایک پروٹین کوڈ کرتی تھی جس کا نمایاں فنکنش دوسری پروٹینز کے ساتھ چھوٹا سا کیمیکل چپکا دینا تھا۔ یہ فاسفیٹ گروپ ایک ماسٹر سوئچ کا کام کرتا تھا اور پروٹینز کو “آن” کرتا تھا۔۔ ایسا کام ایک طرح کی انزائم کرتی ہیں جن کو کائنیس کہتے ہیں۔ جو پروٹین سارک بناتا تھا وہ طاقتور کائنیس تھی۔ جو درجنوں مالیکیولر سوئچ آن کرتی تھی۔ یہ تیز متحرک پروٹین خلیات کی تقسیم ہونے والی پروٹین پر اثرانداز ہوتے تھے اور اس کی حالت کو ساکن سے تقسیم ہونے والی تک لے جانے کی رفتار میں اضافہ کر دیتے تھے۔ اور یہ تیزرفتار تقسیم کینسر کا خاصیت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب 1979 تک بائیوکیمسٹ اور ٹیومر وائرولوجسٹ کی مشترکہ کوششوں سے اس عمل کی میکانیکی تصویر سامنے آتی جا رہی تھی۔ روس کارسوما وائرس مرغیوں میں کینسر کا سبب ان کے خلیات میں سارک جین کا اضافہ کر کے کرتا تھا۔ یہ ایک کائنیس متعارف کروا دیتی تھیں جو حد سے زیادہ فعال تھی۔ یہ کائنیس خلیاتی سگنل کے جھرنے کو آن کر دیتی تھیں۔ اور اس سے خلیات تقسیم تیز تر ہو جاتی تھی۔
یہ بہت خوبصورت اور باریک بین مہارت سے کیا گیا کام تھا۔ لیکن ایک مسئلہ تھا۔ اس والی سٹڈی میں جو وائرس تھا، وہ انسانی کینسر کا نہیں تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا اس سٹڈی کا کوئی براہِ راست تعلق انسانی کینسر سے تھا؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply