کس کس کو بتائیں گے رہائی کا سبب ہم۔۔۔

سانپ گزر گیا اب لکیر کو کیوں پیٹتے ہیں صاحب؟ سینہ کوبی کو اور بہت سے مسائل ہیں یہاں۔ اب ایسے زہریلے سانپ جنہیں راستہ بھی آپ خود دیں اور بھگائیں بھی خود، تو پھر اس ڈرامے کا مقصد کیا ہے آخر۔ ریمنڈ ڈیوس بھی ایک ایسا ہی کردار ہے جس کی تخلیق امریکہ میں ہوئی۔وہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، جاسوس تھا یا کنٹریکٹر، یہ تو اسے اس ملک کا ویزا دینے والے ہی بہتر جانتے ہوں گے۔ اب ایسے لوگوں کو ویزے کن شرائط پر جاری کئے جاتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔
بہرحال ریمنڈ ڈیوس نے 27 جنوری 2011 کو لاہور میں جو تہلکہ مچایا وہ سب جانتے ہیں اور اس پر سیر حاصل بحث و مباحثے بھی ہو چکے ہیں۔ لیکن ایسے ہی ذرا یاد دہانی کیلئے بتا دوں کہ ان صاحب نے 2 لڑکوں فہیم شمشاد اور فیضان حیدر کو فائرنگ کر کے قتل کیا۔ اب یہ اس نے اپنے تحفظ میں کیا یا کوئی اور وجہ تھی ،لیکن بقول ریمنڈ ڈیوس کے ان لڑکوں میں سے ایک نے اس پر پستول تانی تھی۔ ریمنڈ ڈیوس نے ذرا زیادہ ہی جلدی دکھائی اور انہیں قتل کر دیا۔ پھر ان کی اپنے کیمرے سے تصاویر بھی لیں جن میں پستول ان لڑکوں کے پاس تھی۔ اس کی گرفتاری سے لیکر احتجاجی ریلیوں، جلسوں اور میڈیا پر چلنے والی خبروں سے لگتا تھا کہ بس اب کسی بھی وقت اسے لٹکا دیا جائے گا۔ لیکن پسِ پردہ کیا گیم چل رہی تھی، اس کا جاننا بھی ضروری ہے۔ اب چونکہ امریکہ ایک سپر طاقت ہے اور کبھی کبھی ہم بھی کشکول تھام لیتے ہیں تو معاملات کو خراب نہیں کیا جا سکتا تھا۔
لہٰذابیچ کی راہ نکالنا ضروری تھا۔ اس وقت مرکزی حکومت پیپلز پارٹی کی تھی اور پنجاب میں شہباز شریف وزیرِ اعلیٰ، یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم، آصف زرداری صدر، چوہدری افتخار احمد چیف جسٹس، جنرل اشفاق پرویز کیانی چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل شجاع پاشا ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ ریمنڈ ڈیوس گلے کی ہڈی ثابت ہو رہا تھا اور سپر پاور کی طرف سے پریشر بڑھ رہا تھا۔ جان کیری کی پاکستان آمد کے بعد ڈیل کرنا ضروری ہو گیا تھا ،لہٰذا اجلاس بلایا گیا جس میں اعلیٰ قیادت شامل تھی۔ غور و خوض کیا گیا کہ بندوق چلانے کیلئے کس کا کاندھا استعمال کیا جائے تو قرعہ فال جنرل پاشا کے نام نکلا کہ یہ چیف جسٹس کو بھی منائیں گے اور مقتولین کے لواحقین کو بھی راضی کریں گے کہ وہ دیت پر مان جائیں۔ مرتے کیا نہ کرتے، ماننا پڑا ان کو۔ بہرحال، مسئلہ حل ہو گیا۔ پنجاب حکومت والے تو صحت کی خرابی کی وجہ سے لندن سدھار گئے اور جو باقی رہ گئے وہ لگے ہوئے تھے اپنے کام کو۔
بالآخر رہائی کا پروانہ آ گیا اور میڈیا پر کہرام مچ گیا۔ لیکن کتنے دن۔۔۔۔۔انہیں چند دن کے بعد کوئی اور چٹخارے دار خبر مل گئی اور وہ اس میں لگ گئے۔ پر شاباش ہے بھئی 24 کروڑ دینے والوں پر۔۔چلو کوئی بات نہیں، کچھ تو ملا ہو گا جواباً۔ ویسے تو ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں بتا دیا ہے کہ جو پیسے اس کی رہائی کیلئے دیت کی مد میں دیئے گئے تھے وہ Reimburse (واپس ادائیگی) ہو گئے تھے۔ اب سود سمیت یا فقط اصل زر۔۔۔واللہ اعلم۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ معاملہ فقط قتل کا تھا؟ ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے کا ایجنٹ نہیں تھا جیسا کہ اس نے خود بھی کہا اپنی کتاب میں، تو پھر اس پر دہشت گردی کا مقدمہ کیوں نہ چلایا گیا؟ کیا ایک شخص ہمارے ملک کے سیکورٹی پلان کو تہہ و بالا کر دے اور اعلیٰ قیادت کو اپنے قانون اور اصول تبدیل کرنے پڑیں تو سوچیں کیا آئندہ ایسا نہیں ہو سکتا؟
نجانے کتنے ریمنڈ ڈیوس ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں صرف اس لئے کہ پسِ پردہ سپر پاورز ہیں،اور ہماری ڈپلومیٹک پاور کہاں گئی سرکار؟ بھلا ہو اس ریمنڈ ڈیوس کا جس نے عین اتنے نازک موڑ پر یہ بارودی کتاب شائع کر دی۔ حکومت پہلے ہی جے آئی ٹی کے نرغے میں ہے، اور اوپر سے اس میں نواز شریف کا نام بھی آ گیا ہے۔ اب بے چارے نون لیگی بیان باز کس کس محاذ پر صفائیاں دیتے پھریں۔ جے آئی ٹی کی گتھی سلجھائیں یا “دی کنٹریکٹر” کے مصنف کو بددعائیں دیں کہ مسئلہ بڑا گھمبیر ہے بھائی۔ویسے جے آئی ٹی کی نوکری تو پکی ہو گئی ہے۔ پانامہ کا ہنگامہ ختم ہو تو اس بارودی کتاب کی تحقیقات بھی کروا لی جائیں لگے ہاتھوں۔

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply