میں لاہور میں کینال روڈ پہ رات کے وقت اکثر چائے کے ڈھابے پہ بیٹھا، چائے پیتا رہتا ہوں اور لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سڑک کے اس پار کئی عورتوں کو رات کے وقت کسی خاص مقصد کے لئے کھڑے دیکھتا ہوں۔ کسی کی منزل گاڑی ہوتی ہے اور کوئی موٹر سائیکل کوغنیمت جان کرسوارہو جاتی ہے، الغرض جس کو جو موقع اور حالات کے مطابق موافق لگے وہ اسی کی ہو جاتی ہے۔ میں آج وہاں کھڑی ایک عورت کو دیکھ رہا تھا جس کے پاس گاڑی آ کے رکی اور تھوڑی سی گفتگو کے بعد ان کو غصے سے دھتکارتے ہوئے روڈ کے اس پار چائے کے ڈھابے پہ آپہنچی۔ڈھابے پہ رش ہونے کی وجہ سے چند کرسیاں میری ٹیبل کے پاس خالی پڑی تھیں۔ ان میں سے ایک کرسی کھینچتے ہوئے بولی صاحب کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟ میں نے سر ہلایا ،بیٹھ جاؤ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ جس بے باکی اور اعتماد سے وہ مجھ سے مخاطب ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا بی بی چائے پیو گی؟
اس نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا، پلا دو صاحب۔ صاحب دل تو جل چکا کلیجہ بھی جلا دو۔ مگر ایک چائے کے بدلے مجھ سے کچھ امید مت رکھنا۔میں نے مسکراتے ہوئے اس پہ واضح کیا کہ میرے ایسے کوئی مقاصد نہیں۔ میں جو کہ ہمیشہ سے نئے لوگوں سے کچھ نہ کچھ معلوم کرنے کی جستجو میں رہتا ہوں، اس پہ بھی سوال داغ دیا کہ میں تمہاری ان گاڑی والوں سے گفتگو دیکھ رہا تھا۔ تم ان کے ساتھ گئی نہیں؟ اچھے پیسے مل جاتے؟ تم ان کو چھوڑ کر کسی اجنبی سے 20 روپے کی چائے پی رہی ہو؟صاحب تم مرد سب ایک جیسے ہوتے ہو۔ تمہارے ذہن میں بس ایک ہی بات سوار رہتی ہے۔میں جو ہمیشہ مرد ہونے پہ فخرکرتا ہوں ایک عصمت فروش عورت کے اس ’نظریہ مرد‘ پہ شرمسار ہو گیا اور اپنی خفت کو مٹانے کے لئے بس ایک مسکراہٹ پر ہی اکتفا کیا۔وہ سب موئے شراب میں دھت تھے صاحب اور وہ گالیاں بک رہے تھے بس صاحب گاڑی کروڑوں کی۔ بات پکوڑوں کی۔
صاحب میں پیشہ ور ضرورہوں مگر میرے بھی کچھ اصول، شرائط وضوابط ہیں۔ میں طنزاً مخاطب ہوا۔ ایک سڑک کے سگنل پہ کھڑی عورت کے اصول وضوابط؟کیوں صاحب ،تم شرفا جب ایک موبائل کی سم سے لے کر بینک اکاؤنٹ اور فیس بک سے لے کر کالج یونیورسٹیز تک کے کاروبار شرائط اور اصولوں پہ چلا سکتے ہو۔ تو میں اپنا پیشہ کیوں نہیں؟میں نے بھی ازاراہِ تفنن پوچھا اچھا تمہارےشرائط و ضوابط کا کتابچہ کہاں تحریر ہے مجھ کو پڑھنا ہے۔صاحب سم خریدتے وقت یا فیس بک اکاؤنٹ بناتے وقت تحریرشدہ شرائط پڑھتے ہو؟ بس اکاؤنٹ بنایا اور آگے بڑھ دیے۔پتا تو اس وقت چلتا ہے جب فیس بک پہ کوئی رپورٹ کرتا ہے اور تم بلاک ہو جاتے ہو۔ میں اس کی دلیلیں سنتا رہا۔
صاحب اب مجھ سے شراب اور پیسے پہ بحث کرکے اپنا فلسفہ مت جھاڑنا۔ میرادل نہیں مانتا کسی شرابی کے ساتھ ،بس میرے یہی اصول ہیں اور وہ چائے کا خالی کپ میز پر رکھ کرواپس اپنی جگہ پہنچ گئی۔میں اس کی باتیں سن کر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ میں ایک ایسے معاشرے میں جی رہاہوں جہاں ایک جسم فروش عورت تو اپنے اصولوں پہ بکتی ہے مگر دوسری طرف غذا کے نام پہ زہر بیچنے والے منافع خور حرص اور لالچ کے طلب گار شرفا ہراصول اور انسانیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہماری نسلوں کو زہرآلود کر رہے ہیں۔ دودھ کے نام پہ کیمیکل ہمارے شیر خواروں کو پلا رہے ہیں۔ مرچوں میں سرخ اینٹوں کا برادہ ملا کے، ٹماٹروں کی بجائے آلو، کدو اور رنگ و نشاستہ ملاکر مضرصحت کیچپ تیار کی جا رہی ہے، پھلوں کومیٹھا کرنے کے لئے سکرین کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ مرغی کے نام پہ مرغی کو ہی اس کے ہم جنس کا گوشت کھلا کے چند ماہ میں تیار کیا جا رہا ہے۔ آٹے میں میدہ اور میدے میں چوکھر ملا کر فروخت کیا جا رہا ہے۔ حرام اور مردہ جانور کا گوشت خدا کا نام لے کرحلال کیا جا رہا ہے۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ معاشرہ جو اپنی بنیادی ضروریات کے بغیر جی نہیں سکتا کب اس قابل ہو گا کہ ملاوٹ سے پاک ہونے کے لئے اصول وضوابط طے کرے گا اور معاشرے کے اس ناسور کا قلع قمع کرے گا جو ان کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں