• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • لوگ معذور افراد کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں/ثاقب لقمان قریشی

لوگ معذور افراد کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں/ثاقب لقمان قریشی

معذور افراد کے مسائل پر باقاعدہ لکھنے کا سلسلہ میں نے 2019ء میں شروع کیا تھا۔ 2019ء کے آخری چھ ماہ میں میری ہر ہفتے کوئی نہ کوئی تحریر شائع ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس وقت مسئلہ یہ تھا کہ لوگ اپنے بنیادی انسانی حقوق سے واقف نہیں تھے۔ سوشل میڈیا پر انکے حقوق سے متعلق پہلی بار بات کی جاری تھی۔ پھر میں نے ایک تجربہ کیا جو بہت کامیاب رہا۔ میں نے ملک بھر سے ایسے لوگوں کی تلاش شروع کر دی جو کام تو کر رہے تھے لیکن انھیں کوئی نہیں جانتا تھا کیونکہ یہ لوگ این-جی-او کے عالمی مافیا کا حصہ نہیں تھے۔

میں نے پورے پاکستان سے بہت سے خصوصی افراد کے انٹرویوز کیئے ہیں۔ انٹرویوز کے دوران کچھ ایسے لوگ بھی ملے جنھیں پینٹنگ، شاعری اور لکھنے کا شوق تھا۔ آرٹ کی زبان میں الفاظ سے زیادہ طاقت ہوتی ہے اس لیئے میں اکثر لوگوں سے درخواست کرتا کہ آپ آرٹ کی زبان میں معذور افراد کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔
اب چونکہ خصوصی افراد کے حقوق کے حوالے سے معاشرے میں بہت آگہی پائی جاتی ہے۔ میں بھی چند ماہ سے مسائل کا شکار ہوں۔ امید کرتا ہوں ان مسائل پر لکھنے اور انکے حل تلاش کرنے سے خصوصی افراد کو بہت فائدہ پہنچے گا۔

میں 2002ء سے چھوٹی موٹی نوکریاں کر رہا تھا۔ 2006ء میں بڑی آئل کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ دفتر جانے سے پہلے میں بہت خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے شائد تمام مسائل حل کر دیئے ہیں۔ لیکن جلد ہی سمجھ آگیا کہ خصوصی شخص کیلئے نوکری سے بھی بڑے مسائل رسائی اور ٹرانسپورٹ کے ہیں۔ اس وقت میری تنخواہ ساڑھے آٹھ ہزار روپے تھی۔ جبکہ چھ ہزار روپے میں ٹیکسی لگا رکھی تھی۔ جب کبھی پیٹرول یا گیس کی قیمت پچاس پیسے یا روپیہ بڑھتی ٹیکسی والا پیسے بڑھانے کیلئے شور مچانے لگتا۔ چند ماہ بعد اسکی ٹیکسی خراب ہوگئی تو اس نے چند دنوں کیلئے اپنے بہنوئی کی ڈیوٹی لگا دی۔ اسکے بہنوئی کا نام گلفروش خان تھا جسے پیار سے پپو بھائی کہتے تھے۔ پپو بھائی دیسی قسم کا رکھ رکھاؤ والا آدمی تھا۔ میں جانتا تھا پپو بھائی جیسا آدمی دوبارہ ملنا مشکل ہے۔ اس لیئے اسے جب پیسوں کی ضرورت ہوتی میں مدد کر دیتا۔ وہ صبح سوا سات بجے گھر کے باہر گاڑی لگا دیتا۔ میں اسے ناشتہ کرواتا۔ ساڑھے سات تک ہم دفتر کیلئے چل پڑتے۔ یہ سلسلہ دو ہزار دس تک چلتا رہا۔ پھر پپو بھائی کی سسرال میں لڑائی ہوگئی جس کے بعد اس نے آنا چھوڑ دیا۔ روز صبح ٹیکسی سٹاپ پہ  جاکر ٹیکسی ڈھونڈنا، ریٹ پر بحث کرنا شام کو پھر یہی کام کرنا معذور شخص کیلئے بڑا مشکل کام تھا۔ اتفاق سے دفتر کا ایک ٹھیکیدار جو کہ ہمارے گھر کے پاس رہتا تھا سے بات ہوگئی۔ اس بندے کی تین بچیاں معذور تھیں۔ یہ صاحب سال ہی ساتھ چلے اس کے بعد انھوں نے تین ہزار روپے کرایہ بڑھانے کی ڈیمانڈ کر دی۔ میں نے انکی چھٹی کروا دی۔ ان صاحب کی جنوری 2015ء میں وفات ہوگئی۔ جس کے بعد سے آج تک میں انکے خاندان کے ساتھ کھڑا ہوں۔

خیر میں نے دوبارہ پپو بھائی کو بلا لیا۔ پپو بھائی 2015ء تک ساتھ چلے جس کے بعد انھیں ہارٹ اٹیک ہوگیا۔ 2016ء میں، میں نے ایک شفٹ والی گاڑی لگا لی۔ جس میں روٹس سکول کے بچے اور ٹیچرز جایا کرتی تھیں۔ اس ڈرئیور کا نام شاہد تھا جو کہ رافع مال کے پاس رہتا تھا۔ شاہد کرائے کی ٹیکسی چلاتا تھا۔ ہر چند ماہ بعد مالک یا تو ٹیکسی بیچ دیتا یا اس سے گاڑی لے کر دوسرا ڈرائیور لگا لیتا جس کے بعد میرے مسائل بڑھ جایا کرتے۔ چار سال قبل میں نے اسے گاڑی دلا دی اور کہا کہ آہستہ آہستہ پیسے اتار دو۔ شفٹوں کا سلسلہ 2021ء تک چلا جس کے بعد کرائے کا سارا بوجھ میرے گلے پڑ گیا۔ میں شاہد سے کہتا رہا کہ مجھ سے کچھ پیسے ادھار لے کر ایک اور گاڑی خرید لو تاکہ گھر آسانی سے چلتا رہے۔ لیکن اس نے میری بات ماننے کے بجائے اپنے خرچے بڑھانا شروع کر دیئے۔ مہنگے سکولوں اور ٹیوشن پر بچے لگا دیئے۔ شاہد جان چکا تھا کہ میرے لیئے دوسرا ڈرائیور لگانا آسان کام نہیں ہے۔ دوسرا وہ اتنے پیسے ادھار لے چکا تھا کہ میرے لیئے اسے چھوڑنا اور پھر پیسے لینے کیلئے پیچھے بھاگنا ممکن نہ تھا۔

پٹرول کی قیمت جب دس بیس روپے بڑھتی میں اسکی تنخواہ میں ہزار روپے اضافہ کر دیتا۔ گزشتہ برس سے میں اسے تیس ہزار روپے تنخواہ دے رہا تھا۔ لیکن یہ روزانہ رو دھو کر مزید پیسے پکڑنے لگ گیا۔ میں اسکے بجلی کے بلوں، بچوں کی فیسوں، راشن، دکھ بیماری کے خرچے اٹھاتا رہا لیکن وہ کبھی خوش نہ ہوا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں نے اسکی گاڑی کے دو دفعہ انجن بنوائے، ٹائر دلوائے، پچاس ہزار کے ٹوکن جمع کروائے اسکے علاوہ بہت کچھ کیا جو یاد نہیں۔

میں نے متعدد بار اسکے گاڑی کے کام اور ادھار اتار کر اس سے کہا کہ اب محنت کر اور اپنا نظام چلانے کی کوشش کر۔ موٹی رقم لینے کے بعد اسکی آنکھوں میں چمک آجاتی۔ پندرہ بیس دنوں میں پیسے ختم کر کے دوبارہ مانگنے لگ جاتا۔ بکرا عید سے دو دن قبل یہ بیگم کے آپریشن کا بہانہ کرکے میرے پاس آیا اور پیسے لے گیا۔ عید کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ مزید بلیک میل نہیں ہونا۔ میں نے شاہد سے بات کرنا کم کر دی۔ یہ ہر چند روز بعد پٹرول پمپ پر گاڑی کھڑی کرکے میرے پیر پکڑنے لگتا لیکن میں انکار کر دیتا۔

بیس اگست کو شاہد صاحب نے مجھے اتارا اس کے بعد اپنا نمبر بند کر دیا۔ نمبر کھولتا بھی تو میری کال دیکھ کر لائن کاٹ دیتا ہے۔ شاہد پر اس وقت میرے اچھے خاصے پیسے ادھار ہیں۔ میں نے اسکا گھر بھی دیکھ رکھا ہے۔ لیکن وہ جانتا ہے کہ میں اکیلا ہوں اور اسکے پیچھے بھاگ نہیں سکتا اسلیئے ڈھٹائی سے گھوم رہا ہے اور میں اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

خصوصی افراد گھر، سکول، کالج، دفتر، کام کی جگہ، دوستوں، رشتہ داروں کے ہاتھوں ذیادتیوں کا نشانہ بن رہے ہوتے ہیں۔ لوگ مختلف طریقوں سے انھیں بیلک میل کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں آجکل بہت سے مسائل کا شکار ہوں۔ پریشانی اور خوشی دونوں احساسات ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ پریشانی مسائل کی وجہ سے ہے اور خوشی اس بات کی ہے کہ ان مسائل پر میری آنے والی تحریریں خصوصی افراد اور انسانی حقوق کی تاریخ میں اہم کردار ادا کریں گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply