انتخابات کی ساکھ اور بعد از انتخاب حکومت سازی ؟ ۔۔۔راحت ملک

عام انتخابات 25 جولائی کوہوں گے؟ یہ سوال اب بھی بعض ذہنوں میں موجود تھا۔ شکوک و شبہات کی وجہ بیان کرنا مشکل ہے . تا ہم کچھ  قابل قبول و عام فہم مفروضے جن کو حالیہ واقعات نے مصدقہ حیثیت دے دی ہے، ان کا حوالہ دینا یا تذکرہ کرنا سہل ہے ۔ قارئین تمام واقعات  اور رونما ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ ہیں۔

بڑا خیال ہے کہ اگر ریاست اخلاص کے ساتھ ( ریاست سے مراد مقتدر حلقے ) اس بات میں احتساب کے متعلق دلچسپی رکھتی تو وہ افراد کے احتساب کی بجائے رائج معاشی سانچے کو بدلنے میں معاونت کرتی، جس کی ہر شاخ پر ناگزیر طور پر مالی اخلاقی کرپشن اور دیوالیہ پن کا پھل لگا ہوا ہے۔ یوں ہوتا تو پھر اس کا سیاسی ونگ جسے عمران خان یا پی ٹی آئی اور چند دیگر ہم خیال تنظیموں کے حوالوں سے بیان کیا جا سکتا ہے وہ بھی مخصوص افراد کے خلاف کرپشن کے الزامات کا تواتر سے ڈھنڈورا نہ پیٹتے ۔ بلکہ کچھ بنیادی معاشی تبدیلی کی بات کرتے۔ جبکہ نیب عدالت اپنے متنازعہ فیصلے میں بھی ملزم کو سزا سناتے ہوئے تسلیم کر چکی ہے کہ استغاثہ کرپشن ثابت نہیں کرسکا۔ تو اس  فیصلے کے بعد بھی عمرانی حلقہ کی طرف سے زور و شور سے نواز شریف پر الزام لگانا، بادی النظر میں یہ تمام الزامات عدالت کے فیصلے پر تنقید کے مترادف ہیں۔

ڈر یہ ہے کہ معاملہ کرپشن کی بجائے کچھ اور تھاجسے اہل علم و حکمت ملک میں اختیار و انسداد کی کشمکش کا نام دیتے ہیں ۔

دنیا کے ساتھ قیام پاکستان کے وقت آئینی جمہوریت کا وعدہ کیا  گیا تھا۔  ملک میں جمہوریت کے لئے سیاسی مطالبات کی شدت  حتمی طور پر کئی سیاہ شبوں اور انسانی جانوں کے  خراج کا خو ن دینے کے اور بڑھی تو باقی ماندہ ملک میں 1973 میں مرتب کئے گئے پہلے  منتخب شدہ جمہوری دستور میں  طے کردیا گیا تھا کہ ملک کے طول وعرض میں اقتدار و انصرام کے سیاہ و سفید  کے مالک عوام ہوں گے ۔ لیکن شومئی قسمت 27 مارچ 1952 سے  بالادستی کے حصول کے لئے شروع  ہوئے عمل کے متعدد تہہ در تہہ  مراحل کے بعد بھی  ریاست کا ایک ماتحت ادارہ اور اس کی ہم نوا عدلیہ آئین میں طے شدہ حدود سے آگے اختیار کے مالک و حاکم ہیں ۔

( میں جسٹس منیر سے اب تک ملک کی عدالتی تاریخ پہ تبصرہ کررہا ہوں )

اس سیاق و سباق میں  اہل اختیار نے  پارلیمان کے ذریعے  اقتدار تک پہنچے ہوئے  منتخب نمائندگان کے قائد ایوان کو  اقتدار کی غلا م گردشوں سے نکالا  تو اس کا واضح مطلب تھا کہ اب کی بار  مسلم لیگ یا نواز شریف کو بھی  اقتدار تک رسائی نہیں ملے گی چہ جائیکہ  وہ اپنے لئے اختیارات طلب کرنے کی جسارت کریں ۔ اسی منظم حکمت عملی کے پہلے مرحلے میں پارلیمانی جمہوری اقتدار کے مطابق  دونوں ایوانوں میں سیاسی عدم توازن  اور تقسیم کا کھیل کھیلا گیا ۔ بلوچستان اسمبلی اس مقصد کے لئے سہل ، آسان اور پر یقین وسیلہ تھی سو وہ بنی ۔  اب صورتحال یہ ہے کہ اب اگر عام انتخابات میں  تمام تر احتیاطی تدابیر و اقدامات کے باوجود مسلم لیگ  قومی اسمبلی میں واحد بڑی جماعت بن کر ابھرے اور تنہاء یا سابقہ اتحادیوں کے اشتراک سے حکومت بھی بنالے تو بھی وہ  آئینی بندوبست میں ایسی آئینی ترامیم نہیں کر سکے گی جو پارلیمان کی بالادستی کو چیلنج کر نےوالوں کے لئے سد راہ  بن سکیں ۔

گویا پہلے مرحلے میں ہی ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کو ایک مختلف پارلیمان میں ( سینٹ اور نیشنل اسمبلی )  میں بدل کر خیر و عافیت کا معقول بندوبست کیا جا چکا ہے ۔ تاہم سیاست کی کیمسٹری سماجی نوعیت کی  ہوتی ہے ریاضیاتی نہیں ۔  ممکن ہے مسلم لیگ حکومت بنانے کی عددی صلاحیت کے باوجود آئینی ترمیم کے لئے اگر کوشش کرے تو اسے پیپلز پارٹی میں ابھرتے ہوئے  نئے رجحانات و قیادت کے پس منظر میں تعاون ناممکن نہ ہو ۔ چنانچہ اس خدشے کے تحت 25 جولائی سے قبل تمام تیز بہدف صدری نسخے آزما کر مسلم  لیگ کو کمزور کرنے یا تقسیم کرنے کے منصوبے زیرغور بلکہ روبہ عمل رہیں گے جیسا کہ جیپ اور کالعدم مذہبی تنظیموں کا شریک انتخاب ہونا ۔

اگر مسلم لیگ نواز قومی اسمبلی میں ایک سو کے لگ بھگ نشستیں حاصل کر لے تو اس کا  مطلب ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی بھی مستحکم حکومت قائم نہیں ہوسکتی  اور اگر دریں حالات مسلم لیگ سیاسی پینترا بدلتے ہوئے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لے تو صورتحال بہت گھمبیر ہوسکتی ہے ۔ باقی جماعتیں بھی ابھی سے حکومت سزی کے خدوخال پر متفق ہوتی نظر نہیں آتیں  بلکہ ان میں شدید اختلاف نمایاں ہے ۔ جبکہ مسلم لیگ ایک سو نشستیں جیت کر بھی  انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگا دے اور  احتجاج شروع کردے تو معروضی حالات اس کے موقف کی تائید کررہے ہوں گے کیونکہ نگران حکومتوں نے  اپنی بے بسی یا وابستگی کسی بھی سبب سے انتخابات کی اخلاقی جمہوری اقدار اور غیر جانبدارانہ  شفافیت کی ساکھ مجروح ہی نہیں کی بلکہ اس پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔  ملکی ذرائع ابلاغ کا گلہ گھونٹنے سے اب نہ تو حقائق کو چھپایا جا سکتا ہے  نہ ہی عوام کو گمراہ کیا جا سکتا ہے۔  دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور ٹیکنالوجی تک تیز ترین رسائی اور  معلومات کی فوری ترسیل کے سبب ریاست کے آمرانہ فیصلوں کے ایک دیوار کھڑی کی جا چکی ہے کچھ دوست اس دیوار کو تسلیم کرتے ہیں  مگر اسے ایک شیشے کی دیوار بیان کرتے ہیں  جو کہ نازک ہے مگر میرا کہنا ہے کہ اب شیشے کی دیوار  کی دیوار کی نازکی پر طبع آزمائی نہ کی جائے  بلکہ یہ تسلیم کیا جائے کہ اگر اب یہ دیوار بھی ٹوٹی تو زبردست چھناکا ہوگا ۔ بہت زوردار، چنانچہ اب بھی آئینی حدود کو تسلیم کر لیا جائے تو  ملک بحران سے بچ سکتا ہے ۔  عوام و اقوام کے آئینی و جمہوری حقوق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں ہی  سب کا وقار اور ملک کی بقاء  ہے  اور یہی ہماری طلب و منشاء بھی ہے ۔

پیپلز پارٹی تنہاء حکومت بنانے کی صلاحیت سے محروم رہے گی ۔ تیسری جماعت پی ٹی آئی ہے ، کیا یہ دونوں جماعتیں آزاد امیدواران ، صاحبان جیپ اور امکانی طور پر  مسلم لیگ میں پیٹریاٹ گروپ  حکومت بنا لیں گے اور  کیا ایسی حکومت سیاسی اعتبار سے مستحکم و یکسو ہوگی ؟ یا بھان متی کا کنبہ ہو گی جس کا ہر روڑا ہر روز بکھرتا جائے گا ۔

تیسرا امکان یہ بھی زیر بحث لایا جانا چاہیئے کہ پی ٹی آئی بھرپور اکثریت  حاصل کر لیتی ہے  تو بھی وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے  مجہول کردار کی مالک ہوگی ۔ کیونکہ اس کے پاس مسلم لیگ کے برعکس  کم تعداد میں سینیٹرز ہوں گے  جو ہر مرحلہ پر اسے  مزید مجہولیت کی جانب دھکیلیں گے ۔ کیا پی ٹی آئی اختیارات کے  بغیر محض اقتدار کے بل بوتے پر نیا پاکستان بنانے کا اپنا نعرہ  پورا کرسکے گی یا پرانے پاکستان پر ہی ملمع سازی  کے لئے آمادہ ہوجائے گی ۔

مجھے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان بعد از انتخابات  پارلیمانی اشتراک کے امکانات زیادہ دکھائی دیتے ہیں  اور شائد یہی رستہ  ملک کے استحکام اور درپیش  داخلی و خارجی بحران و خلفشار  کے سدباب کی سمت جاتا ہے ۔

سیاسی استحکام اور ہموار جمہوری  حکمرانی کے تصورات  کو استقرار دینے کے لئے  تجویز کیا جا سکتا ہے کہ  بلدیاتی اداروں سے ایوان بالا تک  تمام اداروں کے انتخابات  براہ راست یا فہرست سسٹم کے تحت ایک ہی  وقت اور ایک ہی دن کرائے جائیں تو سیاسی مخاصمت اور  اداروں میں رخنہ اندازی کے خدشات کم ہوسکتے ہیں ۔ بلدیات ادارے بھی فعال ہوجائیں گے اور صوبائی حکومتیں بھی ان کے انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوسکیں گی ۔ اسی طرح بلدیاتی اداروں کی موجودگی میں عام انتخابات پر  ان اداروں کے منتخب سربراہان  اور اراکین کی اثرپذیری  کا خدشہ بھی زائل ہوسکتا ہے ۔

یوں سینٹ اور قومی اسمبلی میں بھی  عددی توازن آجائے گا ۔ جس سے دونوں محترم ایوانوں میں  رسہ کشی ختم ہوجائے گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply