آج ووٹر کا امتحان ہے۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

بے شک جمہوریت ہی ترقی کا راز ہے، بے شک منتخب نمائندے ہی ملک کو گہرے مسائل سے نکال سکتے ہیں۔جدید تاریخ میں ترقی یافتہ ممالک نے جس طرز حکمرانی کو شعوری طور پہ اپنایا اسے جمہوریت ہی کہا جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کا مسئلہ مگر الگ ہے۔ترقی پذیر ممالک میں چند خاندانوںکے بار بار حق حکمرانی کو ہی جمہوریت کہا جا رہا ہے۔ اس بیانیے کو مستحکم کرنے میں نام نہاد روایتی سیاستدانوں کا منفی کردار ہے۔یہ لوگ ایک دوسرے کے اقتدار کو استحکام دینے میں اندر سے ایک ہیں۔ ایک ایک خاندان کے چار چار پانچ پانچ افراد کو نون لیگ، پیپلز پارٹی اور کہیں کہیں تحریک انصاف نے بھی ٹکٹ جاری کیے ہوئے ہیں، مولانا فضل الرحمان کے ایم ایم اے والے اتحاد نے بھی مفتی محمود خاندان کے تین چار افراد کو ٹکٹ تھما دیے ہیں۔
ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیتے وقت جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ کہ، یہ لوگ الیکٹ ایبلز ہیں، یہ اپنی سیٹ آسانی سے نکال سکتےہیں۔اس میں دوسری رائے بھی نہیں کہ کچھ خاندان برسوں سے پاکستانی سیاست میں اپنا کردار قائم رکھے ہوئے ہیں۔کچھ خاندان تو ایسے ہیں کہ مختلف پارٹیوں میں اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ کوئی بھی پارٹی حکومت بنائے، الیکٹ ایبلز کا خاندان اقتدار میں ہی ہو گا۔ اگرچہ عمران خان نے روایتی سیاسی حصار کو توڑنے اور تبدیلی لانے کا نعرہ بلند کیا، مگر آخر کار عمران خان بھی الیکٹ ایبلز اور سرمائے والوں کے سامنے ڈھیر ہوتے نظر آئے۔شاہ محمود قریشی،علیم ڈار،جہانگیر ترین،وغیرہ نے پارٹی کے اندر اپنے اپنے دھڑے بنائے اور روایتی سیاست کو آہستہ آہستہ پی ٹی آئی کے اندر بھی بڑھاوا دیا۔ یہی چیز ناقدین کو متوجہ کرتی ہے۔
نون لیگ اور پیپلز پارٹی روایتی سیاست سے دامن نہیں چھڑا پائی ہیں۔بلاول بھٹو نے اگرچہ بڑی حد تک پیپلز پارٹی کے ناراض جیالوں کو متوجہ کیا،مگر مزاحمتی سیاست کی علمدار جماعت پیپلز پارٹی بھی اس انتخابی معرکے میں کوئی جاندار منشور پیش نہ کر سکی۔بلکہ پارٹی کی قیادت یعنی آصف علی زرداری کی توجہ مرکز میں اتحاد کے ذریعے حکومت بنانے پر مرکوز ہے۔اگر وہ اتحادی حکومت نہ بنا سکے تو پھر ان کی ترجیح بلاول بھٹو کو اپوزیشن لیڈر بنانا ہو گی۔ یوں ایک نعرے کے ذریعے،کہ” ہمارے بغیر پارلیمان نہیں چل سکتا”،سیاسی منڈی میںہلچل مچا کر اپنا کام تمام کر دیں گے۔نون لیگ کی قیادت نظام سے بغاوت اور ووٹ کو عزت دو، کی بات تو کرتی ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ سب اقتدار کے حصول تک کے لیے ہے۔بھلا جس نظام کو استحکام بخشنے میں شریف خاندان نے 30 سال لگا دیے وہ اس نظام سے بغاوت کیسے کر سکتے ہیں؟ یہی نظام تو روایتی سیاست کی بنیاد ہے۔ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو وہی جمہوریت راس ہے جو انھیں اقتدار تک لے آئے۔نون لیگ کا کہنا ہے کہ اگر دھاندلی ہوئی تو عوامی سیلاب کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر نون لیگ کو قابل ذکر سیٹیں نہ ملیں،تو نون لیگ اسے عوامی فیصلہ سمجھنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی سازش اور دھاندلی سمجھے گی۔جیل سے میاں نواز شریف نے آڈیو پیغام جاری کیا کہ آزاد وطن کے غلام بنا دیے جانے والے لوگو، باہر نکلو اور ایسا فیصلہ دو جو تمام فیصلوں کو بہا لے جائے۔اس پیغام میں ووٹر کو متحرک کرنے کے بجائے انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نون لیگ کی قیادت کے ساتھ عدلیہ اوراسٹیبلشمنٹ زیادتی کر رہی ہے۔ خورشید شاہ کا بیان ہے کہ پری پول دھاندلی پوری دنیا کو نظر آرہی ہے، یہ چیزاصل میں خوف کا وہ گہرا احساس ہے جو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو قبل از وقت ہی دھاندلی کا رونا رونے پر اکسا رہا ہے۔
اسی طرح مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اپنے کسی منشور کے بجائے مذہبی جذباتیت کے سہارے چار چھ سیٹیں لینے کے چکر میں ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ملکی مسائل کے حل کے لیے کوئی قابل عمل اور زمینی حقائق سے متصل ہوتا منشور نہ دے سکیں۔ وہی روایتی نعرے،جذباتی دعوے،روزگار کے لارے،ڈیم بنانے کے خواب،کروڑوں نوکریاں دینے کا عہد ،نظام مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کی باتیں اور بس۔وہی چکر جو ستر سالوں سے چل رہا ہے اسی نئے پہیے لگا کر پھر سے گھما دیا گیا ہے۔نئے عہد کے نئے تقاضوں سے نمٹنے کا نہ کسی کے پاس منصوبہ نہ کسی کو ادراک،عمران خان کا ہدف نون لیگ اورپیپلز پارٹی کی قیادت کو پس دیوار زنداں کرنا ہے تو نون لیگ و پیپلز پارٹی کا ہدف عمران کی جماعت میں زیادہ سے زیادہ دھڑے بندیوں کی حوصلہ افزائی کر کے روایتی سیاسی کرداروں کو مستحکم کرنا ہے۔
کیا عمران خان اپنے منشور پر روایتی سیاسی گروہوں کے ہوتے ہوئے عمل کر پائیں گے؟اگر عمران وزیر اعظم بنتے ہیں اور وہ روایتی سیاسی حصار کو توڑنے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو انھیں اپنی ہی جماعت کے ممبران اسمبلی کی طرف سے فارورڈ بلاک کی شکل میں پہلی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں امتحان سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ ووٹر کی سیاسی بصیرت کا ہے۔ ووٹرز اگرچہ فیصلہ کر چکے ہیں مگر پھر بھی آخری لمحات میں ایک بار پھر ضرور سوچیں کہ کیا آپ شخصیت کے کسی سحر میں ڈوب کر ووٹ دے رہے ہیں؟ یا مذہبی و مسلکی جذبات کی رو میں بہہ کر کسی فتوے کا سہارا بن رہے ہیں؟ کیا آپ آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے اپنے اپنے حلقے سے بہتر امیدوار کا انتخاب کر رہے ہیں یا برادری ازام اور دھڑے بندی کے دبائو کا شکار ہے؟آخر الذکر کا امکان غالب ہے، اس کے باوجود بے منشور انتخابات کے اس آخری لمحے میں نسبتاً بہتر امیدوار کا انتخاب کریں۔جب تک ووٹر اپنے امتحان اور اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرے گا ملک یونہی بے یقینی کی کیفیت کا شکار رہے گا اور ہم چند خاندانوں کے کاسہ لیس بن کر زندگی کے ایام تلخ تر کرتے رہیں گے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply