کائنات اور انسان ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

بیسویں صدی کے وسط میں اس نظریے کو حقیقت مان لیا گیا کہ کائنات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے، لگ بھگ چودہ بلین سال قبل یہ ایک نقطے کی مانند تھی اور اپنے مخصوص اصولوں پر کاربند تھی، آج اس کی جدید شکل مختلف ہے اور کائناتی یا فطری اصول بھی مختلف ہیں، اسی فارمولے کے تحت اگلے چند بلینز سالوں میں اس کی شکل اور اصول بالکل جدا ہوں گے، اس نظریے کے حقیقی بانی سوویت محقق فرائیڈمین ہیں جنہوں نے سو سال قبل بغیر کسی انسٹرومنٹ کے، صرف کاغذ اور قلم کی مدد سے یہ دریافت سامنے رکھی، آئین سٹائین شروع میں اس نظریے کے خلاف رہے جب تک بیلجیم کے ماہر فلکیات جارج لیمیٹرا نے اس دریافت کو بگ بینگ تھیوری کی شکل میں آشکار نہ کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چند ہزار سالوں میں انسان نے معاشرے میں اقدار و اخلاق، خیر و شر کی جو حدود مقرر کی ہیں ، اس کی بنیاد انسانی ذہن میں یہ تھی کہ چونکہ کائنات ابدی اور جامد ہے اس لئے یہ تمام سماجی و اخلاقی اصول جامد و مطلق مثالی ہیں یا ہونے چاہئیں ، لیکن وجودیت کو کاملیت میں ڈھالنے کی کوشش ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں، کاملیت اپنی تعریف میں ثبات ہے جبکہ وجودیت تحرک یعنی تبدیلی کا نام ہے، یوں مثالی ریاست یا مثالی معاشرے کا تصور اپنی اصل میں غیر موضوعی ہے۔
کائنات کے ثباتی تصور کا ٹوٹنا شخصی مفہوم پر اثرانداز ہوا، قدیم زمانوں سے انسان کی شخصیت کائنات کی طرح اٹوٹ اور مستحکم مانی جاتی رہی، فرد کو جسمانی، روحانی، نفسیاتی اور سماجی ساخت کا کامل مجموعہ سمجھا گیا، معروف یونانی فلاسفر Casceron نے اسی فرد کیلئے پہلی دفعہ لاطینی اصطلاح individ متعارف کروائی، جس کا مطلب ہے – غیر منقسم(نہ تقسیم ہونے والا), گویا کہ فرد ایسی ہی سماجی غیر منقسم اکائی ہے جیسا کہ ایٹم ایک مادی غیر منقسم اکائی ہے، مادی دنیا میں ایٹم کو اکائی مانتے ہوئے جو منطقی تشکیل سامنے آئی اسے سائنس کا نام دیا گیا جو آگے جا کر علت و معلول (cause and effect) کے اصول پر رواں ہوئی، جو مباحث اس اصول کے تابع نہیں انہیں سائنسی دنیا سے باہر پھینکتے ہوئے ان پر تحقیق کو وقت کا ضیاع گردانا گیا، فرد کی غیر منقسم اکائی کی تعریف نے روایتی مغربی سوچ کو ایک سمت دی، یہیں سے آزادی اور خود مختاری کا نظریہ پروان چڑھا، اسی نظریے نے جدید انسانی تہذیب کی داغ بیل ڈالی ۔
لیکن بیسویں صدی میں کائنات کا ثباتی اور فرد کا غیر منقسم ہونے کا تصور سقوط سے جا ٹکرایا، نطشے نے کہا تھا کہ ہماری خواہشات کے بالکل متضاد، Copernicus نے انسانیت کو قائل کیا کہ زمین ساکن نہیں ہے، یہ نظریہ اس وقت کے عمومی مذہبی مزاج کے بالکل خلاف تھا، اس اختلاف پر پردہ ڈالنے کیلئے سربیا کے محقق بشکووچ نے کہا کہ مادی دنیا میں زمین کے وجود اور اس کی نقل و حرکت کی بجائے ایمان کو غیر منقسم مادی اکائی ایٹم پر منتقل کیا جانا چاہئے، نطشے ہی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ عیسائیت کے تابع رہتے ہوئے ایمان و یقین کو فرد کی روحانی فطرت میں تلاش کرنا چاہیے، یہ دلچسپ معاملہ ہے کہ کائنات اور فرد کی تعریف میں تبدیلیاں ساتھ ساتھ چلتی رہیں، صدیوں یہ تصور رہا کہ مادی کائنات کی آخری اکائی بھی ایک مادی وجود ہے، لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ مادیت کا لطیف ترین عنصر درحقیقت الیکٹران کی وہ غیر مادی حرکت ہے جو وہ اپنے نیوکلیس کے گرد کرتا ہے، اسی طرح فرد کی شخصیت کو لے کر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طویل عرصے تک شخصیت کو غیر منقسم اور کامل سمجھا جاتا رہا، کسی دوسرے تصور کا سوچنا بھی محال تھا، اس موضوع پر نطشے کے بعد تک جمود برقرار رہا، فرائیڈ پہلا محقق تھا جس نے فرد کی شخصیت کو تین حصوں کا مجموعہ بتایا جو کہ نفس، انا اور مافوق الانا ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے ایٹم اپنی ساخت میں تین حصوں پروٹان، الیکٹران اور نیوٹران پر مشتمل ہوتا ہے، فرائیڈ کے اس نظریے کے بعد فرد کو individ کی بجائے divid سمجھ کر تحقیق کی جانے لگی، یہیں سے یہ حقیقت واضح ہوئی کی شخصیت فکر کو جنم نہیں دیتی بلکہ یہ فکر ہے جو شخصیت کی ترقی یا تنزلی کی ضامن ہے۔ پرانے جسم کے ساتھ نئی شخصیت کا سامنے آنا روزمرہ کا مشاہدہ ہے، انسانی فکر اور اس کے سماجی و اخلاقی معیار بدلتے رہتے ہیں، ایسے میں شخصیت کی اٹل تعریف تقریبا ناممکن ہے۔
موت کے بعد انسانی اعضاء کے احیاء پر تجربات غیر معمولی طور پر حیران کن ہیں، ان تجربات کے مطابق کسی علیحدہ عضو میں زندگی واپس لائی جا سکتی ہے اور ایسا ہو رہا ہے، ایسے تجربات اور ان کے نتائج مذہبی ذہن کو اختلاف پر اکساتے ہیں کیونکہ ان تجربات سے روح کے غیر منقسم تصور کو ٹھیس پہنچتی ہے، محققین ہمیں بتاتے ہیں کہ ہر عضو اپنی ایک علیحدہ روح رکھتا ہے، اگر اسی نظریے کو وسعت دیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جسم میں جتنے خلیات ہیں اتنی ہی ارواح ہیں، بلکہ اس سے بھی آگے خلیے کے اندر مالیکیولز کی تعداد، اور پھر ان مالیکیولز میں موجود ایٹمز اور ایٹمز کے گرد گردش کرتے الیکٹرانز کی تعداد کے برابر ارواح موجود ہیں جو ملکر ایک انسان کی اجتماعی روح کو ترتیب دیتی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ کائنات کے ہر مادی جسم میں بنیادی کردار اسی مادی اکائی ایٹم کا ہے، اور ان کے وجود کو برقرار رکھنے میں ایٹمز کے الیکٹرانز کی غیر مادی حرکت ہے، جب ہر جاندار اور بے جان، زمینی و غیر زمینی اجسام ایک جیسے الیکٹرانز ہی کی حرکت کے مرہون منت ہیں تو اس بات کو ماننا پڑے گا کہ یہ سب ایک ہی اینٹینے سے سگنلز پکڑ رہے ہیں، اور معلومات کو کائنات کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں کوئی وقت درکار نہیں، ایسے میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ شمسی و قمری بروج، ستاروں کی الٹی سیدھی چالیں یا پھر مشتری و زہرہ کے گرہن سے آپ کی قسمت و صحت پہ اثر پڑ سکتا ہے تو ایسے دعوے کو یکسر جھٹلانا دانشمندی نہیں، شاید اسی لئے فرانسیسی ریاضی دان ہینری پاؤنکیر نے کہا تھا کہ زمین کے ایک کونے پر موجود تتلی کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ زمین کے دوسرے کونے پر طوفان برپا کر سکتی ہے ۔
ہم آج تک خود کو ایک واحد وجود سمجھتے آئے ہیں، اس تصور نے شخصیت کے انفرادی عناصر سے ہماری توجہ ہٹائی اور ہم کسی زمین پر پڑے گدلے مگر ثابت آئینے میں ڈھلتے گئے، جو ثابت ہونے کے باوجود کسی قسم کی عکاسی نہیں کرتا، جبکہ شخصیت اپنی اصل میں صاف مگر چکناچور آئینہ ہے جو ہوا میں معلق ہے، اور ہر ذرہ ایک نئی دنیا کا عکاس ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply