وزیر اعظم بھی ناگزیر نہیں۔۔سعید چیمہ

طاقت کی چھڑی جب ہاتھ میں آ جائے تو انسان خود کو ناگزیر سمجھنے لگتا ہے،معلوم نہیں یہ فطری بات ہے یا طاقت انسانی ذہن کو مفلوج کر دیتی ہے کہ وہ خود کو ناگزیر سمجھے،مگر قدرت کی اس کائنات میں کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے،ناگزیر تو کوئی اس وقت ہو جب اس کا کوئی متبادل نہ ہو۔اس کائنات میں ایک چیز پر زوال شروع ہوتے ہی دوسری چیز کا عروج شروع ہو جاتا ہے،جب آفتابی گولہ مغرب کی سمت پہاڑیوں کے پیچھے غروب ہو رہا ہوتا ہے عین اسی وقت چودہویں کا چاند مشرق کی سمت سے چمکنا شروع ہو جاتا ہے اور اسی طرح چاند کے غروب ہونے پر سورج اپنی کرنیں بکھیرنے لگتا ہے۔گھر کا سربراہ پریشان ہے کہ میرے جانے کے بعد میرے کنبے کا کیا بنے گا،ملک کا سربراہ پریشان ہے کہ اگر اپوزیشن نے استعفے دے کر اسمبلی تحلیل کروا دی اور میں وزیرِ اعظم نہ رہا تو ملک کا کیا بنے گا،پرنسپل پریشان ہے کہ اس کے جانے کے بعد کالج کو کون سنبھالے گا،عالمِ دین پریشان ہے کہ اس کے اٹھ جانے سے اس کے مدرسے کی دیکھ بھال کون کرے گا، سب کی پریشانی بجا ہے مگر توکل علی اللہ کہاں گیا،،وہ بار بار کہتا ہے کہ مجھ پر بھروسہ رکھو مگر ہم بھروسہ نہیں رکھتے،وہ سب سے بہتر کارساز ہے مگر ہم اپنے معاملات اس کے سپرد نہیں کرتے،انسانی تاریخ کے اوراق پر الفاظ کی صورت میں بکھری سیاہی خبر دیتی ہے کہ بہت سی شخصیات خود کو ناگزیر، دانائے کُل اور طاقت کا منبہ سمجھتی تھیں،ان کو خدا نے بے بس کرتے ہوئے باقیوں کے لیے مثال بنا دیا کہ کارخانہ قدرت میں بھی کسی کو بھی دوام نہیں،وزیراعظم بھٹو کے سیکرٹری نے ان کے سامنے ٹیبل پر فائل رکھتے ہوئے کہا کہ سر یہ ڈپٹی کمشنر فلاں ضلع کے لیے ناگزیر ہے،”قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں” جینیئس بھٹو نے فائل پر سنہری الفاظ لکھ کر فائل دوبارہ سیکرٹری کو تھما دی،مسئلہ مگر یہ تھا کہ بھٹو خود بھی خود کو ناگزیر سمجھ بیٹھے تھے اور پھر انجام وہی ہوا جو خود کو ناگزیر سمجھنے والا کا ہوتا ہے،اور پھر ضیاءالحق بھی خود کو ناگزیر سمجھنے لگے،جنرل مرحوم سے لے کر عمران خان تک خود کو سبھی ناگزیر سمجھتے رہے ہیں،مگر قدرت ان کا متبادل لے آتی ہے،اچھے یا برے متبادل کی فی الحال بحث نہیں ہے،شخصیت پرستی کا عجب رواج ہمارے ہاں پنپ چکا ہے،جنرل باجوہ کو یہ کہہ کر ایکسٹینشن دی گئی کہ موجودہ حالات میں ان کی پاکستان کے لیے خدمات ناگزیر ہیں،بطور ادارہ فوج کی صلاحیتوں پر اعتماد کرنے کی بجائے ایک شخص کو سب کچھ سمجھ بیٹھنا کہاں کی دانائی ہے۔امیرالمومنین اس وقت خطاب کے بیٹے عمر تھے جب کہا گیا کہ خالد ابنِ ولید کی سپہ سالاری میں لڑنے والی جنگ میں مسلمان شکست نہیں کھاتے،کامیابی کا سہرا صرف سیف اللہ کے سر پر باندھا گیا،امیرالمومنین بھی تاریخ کے عظیم ترین انسان تھے،فوراً خالد بن ولید کو معزول کر دیا، اور پھر تاریخ نے ثابت کر دیا کہ مسلمان صرف خالد کی وجہ سے فاتح نہیں ٹھہرتے تھے، امیرالمونین کی بصیرت تھی کہ سیف اللہ کو معزول کر کے آنیوالوں کو سبق دیا جائے کہ اس کائنات میں کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے اور شخصیت پرستی سے اپنا دامن آلودہ نہ کیا جائے، نہ جانے وزیرِ اعظم کیوں پریشان ہیں کہ ان کے بعد پاکستان کا کیا ہو گا، عمران خان کے بعد بھی پاکستان کا نظام چلتا رہے گا جیسے ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک ریل گاڑی بلا تعطل چلتی ہے،کیا وزیرِ اعظم تاریخ نہیں جانتے کہ خود کو نا گزیر سمجھنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے،اگر جانتے ہیں تو سبق کیوں نہیں سیکھ رہے اور پھر جو سبق نہیں سیکھتے وہ پھر تاریخ کی گرد تلے دب جاتے ہیں،نئے آنے والوں کے لیے رستہ کیوں نہیں چھوڑا جاتا،کسی عہدے پر براجمان شخص خاندانی وراثت کی طرح اس عہدے کو اپنا حق سمجھتا ہے جس سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوا جا سکتا،علم کی راہوں پر سرپٹ دوڑنے والے جانتے ہیں کہ نئے اذہان کا مقابلہ بہت مشکل ہوتا ہے،اسی لیے پرانے لوگوں کو نئے آنیوالوں کو رستہ دینا چاہیئے،فدوی کا خیال ہے کہ پاکستان اس لیے بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکا کہ بروقت موزوں آدمیوں کو عہدے نہیں سونپے گئے کیوں کہ پہلے سے عہدوں پر موجود لوگ اپنے عہدوں سے چمٹے رہنا چاہتے تھے،عہدے کی طاقت کا نشہ شاید لوگ خود پر طاری کر لیتے ہیں۔عہدے کو عزت کے ساتھ چھوڑنے کی بجائے ذلت قبول کر لی جاتی ہے،اور آخر میں حبیب جالب کے دو اشعار ان کی خدمت میں جو خود کو ناگزیر سمجھتے ہوئے فرعون بن جاتے ہیں،جالب اگر کچھ بھی نہ لکھتے اور بس یہ دو اشعار لکھ دیتے تو پھر بھی امر ہو جاتے
تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply