تہران میں پاکستان ایمبیسی۔۔۔۔نذر حافی

دیانتداری سے ادارے ترقی کرتے ہیں، مثبت تبدیلیاں مثبت لوگ ہی لاتے ہیں، اگر کوئی ادارہ ترقی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کلیدی پوسٹوں پر دیانتدار اور مثبت لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ راقم الحروف نے ماضی میں تہران میں پاکستان ایمبیسی کے حوالے سے چند ناقدانہ کالم لکھے تھے، اس کے علاوہ متعدد پاکستانی باشعور لوگوں نے بھی پاکستان ایمبیسی کے منفی رویئے پر مختلف انداز میں احتجاج کیا تھا۔ یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلا اور گذشتہ روز مجھے ایک مرتبہ پھر پاکستانی ایمبیسی جانے کا اتفاق پیش آیا۔ یہاں پر یہ عرض کرتا چلوں کہ جس طرح اداروں کے منفی رویئے پر تنقید کرنا ہمارے قومی شعور کی دلالت ہے، اسی طرح اداروں کی مثبت پیش رفت پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ہماری اجتماعی اور ملی ذمہ داری ہے۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ ایمبیسی میں پاسپورٹ بنانے والا عملہ بلااستثنا انتہائی خوش اخلاق اور منظم ہے، نیز یہ عملہ اپنے کام کو شوق، لگن اور قومی جذبے سے انجام دے رہا ہے۔ یعنی اس وقت اس اسٹاف کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ جو آدمی بھی پاسپورٹ بنوانے جاتا ہے، موجود عملہ انتہائی خوش اسلوبی سے اپنا کام انجام دے کر لوگوں کو مطمئن کرتا ہے۔ اس مثبت تبدیلی پر پوری پاکستانی قوم خصوصاً ایمبیسی کا اسٹاف مبارکباد کا مستحق ہے۔ البتہ ہر ادارے میں مزید بہتری کے امکانات موجود ہوتے ہیں، اس وقت شناختی کارڈ بنانے والے اسٹاف کی صورتحال تقریباً پہلے ہی جیسی ہے، خصوصاً مسٹر عثمان کا رویہ لوگوں کی ساتھ تلخ اور حسبِ سابق تحقیر آمیز ہے۔ ضرورت ہے کہ مذکورہ شخص کو یہ سکھایا جائے کہ افراد کو ٹوکن یا باری کیسے دیتے ہیں، ان کے ساتھ کس طرح بات کرتے ہیں، انہیں ٹیلی فون پر کیسے جواب دیتے ہیں اور ان سے بالمشافہ کیسے ملتے ہیں، نیز انہیں کس طرح رخصت کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

راقم الحروف نے دیکھا ہے کہ ایک بات پوچھنے کے لئے لوگ کئی کئی مرتبہ عثمان صاحب کے کمرے کا چکر لگاتے اور بے عزت ہوتے ہیں۔ عزت کے ساتھ دفتری امور کا انجام پانا ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے، لہذا شناختی کارڈ عملے اور خصوصاً مذکورہ شخص کو یہ ہدایت دی جائے کہ پروفیشنل بنیادوں پر کام کریں اور ممکنہ حد تک اپنے ہمسائے میں موجود پاسپورٹ کے عملے سے دفتری اخلاق اور کام کرنے کا طریقہ سیکھیں۔ اسی طرح ہماری دوسری تجویز یہ ہے کہ ایمبیسی کی سکیورٹی پر ممکنہ حد تک توجہ دی جائے، ایمبیسی میں داخل ہوتے وقت لوگوں کی چیکنگ کی جائے، تاکہ پاکستان دشمن عناصر کسی بھی وقت کوئی معاندانہ کارروائی نہ کرسکیں۔ ہم بحیثیت پاکستانی قوم اچھے اسٹاف کو تہران میں آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں اور اعلیٰ حکام خصوصاً سفیرِ پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مسئلے پر توجہ دے کر ملک و قوم سے دوستی اور محبت کا اظہار کیا۔ ہماری دعا ہے کہ ہمارے تمام قومی ادارے پاکستان ایمبیسی کی طرح اپنی اصلاح اور ترقی کی منازل طے کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply