بھر کے صاحب مطالعہ ہونے کے علاوہ اکرم سہیل کا ایک پروبلم یہ بھی ہے کہ آنجناب کوکرید کرید کر “ایشوز” نکالنے کا خبط ہے۔ اس قدر کہ جہاں شائبہ تک نہ ہو، وہاں سے بھی کوئی لِسّا ماڑا ایشو نہیں تو ڈاہڈا باٹا ٹشو ہی نکال مارتے ہیں ۔ پھر جانے قاری اور اُس کی گھر والی ۔ اسی خبط کو حکما پنگا لینا کہتے ہیں ۔ موصوف نے اب کے جو ایشو کہیں سے دھروُ کے نکالا ہے، اُس کا نام عبدالرزاق بیکل ہے۔ لیکن یہ دریافت نئی نہیں ، خاصی “ہنڈی ہوئی ” ہے۔
ان مہاشے سے ہم پہلی بار پاک فضائیہ کے اسکول آف ائیروناٹکس کے میس میں ملے تھے۔ کھانے کی ایک میز پر جمگھٹا دیکھ کر ہم بھی ٹھٹک اٹک سے گئے تھے۔ دُبلا پتلا سانولا اور معنّک سا ایک “بائی گاڈ”(ائیر مین) انتہائی نستعلیق اُردو میں شاید تیر بہدف پھکّیاں بیچ رہا تھا۔۔ “آنے کی ایک،دوآنے کی تین”۔ غور سے سُنا تو اپنا قیاس درست لگا۔ وہ ایک ہاتھ سے بات ہلا رہا تھا،دوجے کا چپّہ سا بنا کر اپنا بیان مجمع پر چھڑک رہا تھا۔۔۔”ٹو ہوم اِٹ مے کنسرن۔”اُس کا لب و لہجہ حیران کُن حد تک شُستہ تھا۔ ایسے اندازِ بیاں کے لئے کم ازکم پاک فضائیہ کی آب و ہوا یکسر غیرموافق تھی۔ “یار یہ ریشماں غُنڈوں میں کیسے پھنس گئی؟”،ہم نےسوچا ۔ پھر اسے ایک طرف لے جانے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ سوچتے سوچتے ہماری ہفتہ وار “گولڈن نائٹ”بھی غارت گئی ۔ یار لوگ آدھی رات تک ٹیبل ٹینس اور کیرم پر دودھ پتیاں جیتتے اور پیتے رہے۔ ہم نہار منہ تدبیریں کرتے رہے۔آخرآئندہ ویک اینڈ پر ہم اُسے ہاکی گراؤنڈ کی اور تخلیہ میں لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنی سنیاریٹی کے بل پر ہم نے اُسے گول پوسٹ کے جالے میں گھیر کر کے اُس سے پوچھا۔۔ آخر تم ہو کون۔؟
“آپ کے پاس سگریٹ ہے۔۔۔۔؟”اُس نے جوابا”سوال کیا۔
“تم پیتے ہو۔۔؟” ہم نے پوچھا۔ جواب میں اُس نے سموچا مرزا اسد اللہ خاں لا کھڑا کر دیا:
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مُفت میں ہاتھ آئے تو بُراکیاہے
“چُٹّا ہوا لگتا ہے۔” ہم نے سوچا۔ اُس نے دوپیسی نکالے بغیر کے ٹو کے پورے چار سگریٹ پھونک ڈالے۔اور ذرّہ برابر خفیف نہ ہوا۔ ہم حلفیہ کہنے کو تیار ہیں کہ اُس نے صرف ہمیں مالی نقصان پہنچانے کے لئے وہ کمینگی کی تھی، ورنہ اسے سگریٹ کے آگے پیچھے کا علم بھی نہیں تھا۔ ہمارے سامنے اُس نے دو بار سگریٹ اُلٹی سمت سے سُلگایا اور ذرّہ بھر نادم نہ ہوا۔ (ہم نے سوچ لیا تھا کہ اگلی نشست پر اسے بِیڑی کا پیکٹ اور سرکاری کھاٹ کی ادوائن کا ٹوٹامع پتّے والی دیاسلائی پیش کریں گے۔ اور ایسا ہی کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ سُوٹا لگانے کے لئے بن بلائے ہماری اور آنے لگا۔ ایک دن وہ قدرے لیٹ تھا، اُس کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم”کِگنّ کانٹے” میں پرو کر سگریٹ کے بُجھے ٹوٹے سے دوپیسی نکال رہے تھے کہ وہ پہنچ گیا۔۔”یہ کیا حرکت ہے؟” ،اُس نے پوچھا۔ کہا اختتام ہفتہ کی گولڈن نائٹ کا ایک آئٹم ہے۔ ایک دیاسلائی سے آحری بیڑی تک دھواں دھاری جاری رہ سکتی ہے۔ ماچس کی فضول خرچی نہ ہو،ا سے بے موسمی لڑائی بھڑائی۔ سستے میں بھرپور سواد بھی ، ثواب بھی۔۔
“میں بھی کماحقہ ثواب کماؤں گا۔” اُس نے کہا۔اور کما کر رہا۔۔۔۔۔ اُس نے بے حداوکھی اُردو میں یکے بعد دیگرے کئی اشعار فائر کیے۔ جو سارے کے سارے “بُل ہِٹ “ہوئے۔
تم لکھنوی ہو یا دہلوی۔۔۔؟ ہم نے پوچھا
“جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیا ر کے “
اُس نے جواب دیا۔ پھر ایک لمحے کے توقف سے بولا: “میں پوٹا بھر کشمیری ہوں، چپّہ بھر کراچوی۔۔،اور آپ۔؟”
ہم سٹپٹا گئے۔ ہمارے پلّے کوئی ریڈی میڈ جواب نہیں تھا۔ پھر یوں ہی سی ہوائی چھوڑ دی۔۔۔ اپن راولاکوٹی ہیں ، اور انڈے کے سدھن۔۔
“انڈے کے سارے سدھن آپ جیسے ہی ہوتے ہیں؟”اُس نے پوچھا
“نہیں بعضوں کے سینگ بھی ہوتے ہیں” ہم نے جواب دیا۔
“واقعی۔۔؟” وہ پریشان ہوگیا۔ پھر یکدم سنبھلا اور بولا”مَتّی نیں، میں ضلع باغ کا رہنے والا ہوں ، باغ میرا دادکا پِنڈ ہے ۔ اور میرا روحانی سلسلہ امروہہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کو حضرت رئیس امروہی کی زیارت ہے؟ وہی میرے مُرشد ہیں ۔ کبھی درشن کرنے جانا ہو تو کلّے میں پان اور منہ میں شُستہ اُردو زبان رکھ کر جائیے گا۔ وہ بے زبانی بخوشی قبول کر لیتے ہیں، بدزبانی نہیں”۔ہمیں سٹپٹاتے دیکھ کربولا “اگر کسی معمول کے جِنّ نکلوانے ہوں تو اپائنٹمنٹ لے کر جائیے گا۔ ،،۔ ہم جڑوں تک ہل گئے۔ اس کے بعد حضرت صاحب کُجا، ہم اُن کے چیلے کو بھی سرپر ٹوپی رکھ کر ملنے لگے۔ اُس نے جب یہ دیکھا کہ ہم کافی دُور تک باقاعدہ “یرکے” ہوئے ہیں تو ذرا سا پسیج گیا:
” موزوں موسم میں کسی دن اطلاع دے کر ہمارے گھرضرور آنا، چمن کوٹ کے سیب منگوا کر رکھوں گا۔ کچّے ہوں ،تب بھی انتہائی لذیز اور خوشبودار ہوتے ہیں ۔ میں ایک بار حضرت صاحب کے لئے لے گیا تھا، اب بے موسم بھی ذکر فرما ہوجاتے ہیں۔۔بائی دی وے آپ کے ہاں سیب کی کون سی نسل پائی جاتی ہے۔؟”
“بٹنگ۔۔” ہم نے جواب دیا۔ “چمگادڑ سونگھ کر بُوٹے تک سے نہیں لٹکتے، باعزت طریقہ سے پرے سرک لیتے ہیں۔”
“اس پر قلمکاری کے ذریعہ اصل کشمیری سیب کی آنکھیں لگوا لیں،اللہ نے چاہا تو آپ کے ہوتے سوتے آنکھوں میں پُھول پات نکل آئیں گے۔ کشمیری سیب کا سواد الگ، بھر کے ثواب الگ۔ “
ہم نے جنٹلمین پرومس کیا تو بولے، تعویذ لے دوں گا، پورا سال گھر گھروندا سوندھی خوشبو سے بھرا رہے گا۔ حضرت صاحب خود ہی نہیں نوش جاں فرماتے،جِنّوں کو بھی چکھا دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ جِنّات آستانہ عالیہ کے چار چفیرے حاضر رہتے ہیں۔ اور ہاں شعر شُور تو آپ کہتے نہیں، درست نثر سیکھنی ہو تو بتائیے گا۔ حضرت کے کسی چیلے سے کہہ دوں گا۔”ہم اندر خانے اور”یرک” گئے۔ اس کے بعد ہم نے کبھی بچّوں کو چڑیلوں چمگادڑوں کی کہانی تک نہیں سنائی۔۔ وہ بن سنے سہم کر سرِ شام سو جاتے ہیں۔
صاحبو! لمبیاں لمبیاں کاہے کو چھوڑیں ۔۔۔۔؟۔ ہم نے اپنے ممدوح کو پرت سرت کر دیکھ لیا۔ایک دم بے ضرر ہے۔ سوتے میں “چکّ”مار سکتا ہے نہ جاگتے میں جَھکّ ۔ اسے باندھ کے رکھنے کی بھی کوئی لوڑ نہیں۔ کُھلا چھوڑدیں ، بنّے منڈیرے پر “ٹہل قدمی” کر،تھک ہار کے آپ آنے والی تھاں پر آ جائے گا۔ اللہ اللہ خیرسلّا۔ اب اُس میں نیلم جہلم کی لہروں سے بجلی نچوڑنے کا جگرا ہے نہ فلسفے کی موجوں سے پن چکیاں چلانے کا حوصلہ۔ اب اُس کا ایک تصرّف یہ ہے کہ اُسے آرام کُرسی کی گود میں ، اور اُس کی گودی میں دو تین پوتیاں پوتے کُھلے چھوڑ دیے جائیں ۔ وہ اُن کی مجلس تاثیر میں نظمیں ، غزلیں ، گیت لِیکتا رہے۔ یہ ہماری ذاتی نیک صلاح ہے،باقی آپ چاہیں تو اس سے کارہائے دِگر بھی لے سکتے ہیں۔ مثلاً”سالانہ “کاہی” کے موقع پر بانسری ، چنک، ڈھولک بھی بجوا سکتے ہیں، دوہتیاں پوتے بھی ۔ وہ “حرامجادی کُکڑیوں” کے علاوہ “بے پاوّتی” اور کپتّی نسلِ نو کو راہ راست پر لوا بھی سکتےہیں، “تراہ” بھی سکتے ہیں ۔ آخر فضائیہ کے بعد وہ “اوکھی پندی ہائی اسکول”میں ہیڈ ماسٹری بھی کر چکا ہے۔ لیکن شاعری میں جو شاوری موصوف نے کی ، ایسے “چَھلّ”تو نیلم جہلم میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتے ۔
عبدالرزاق بیکل کی بے کلی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ جدید مشینوں کے بغیر،محض الف ننگے گھراٹ کے ذریعہ بپھرے ہوئےدریا جہلم کا پانی”ککو کی نَکّی”تک چڑھانے کا ناصرف جگرا رکھتا ہے، بلکہ ارباب اختیار کو قائل بھی کر چکا تھا۔ لیکن اپنے ہاں اس نوع کی “فالتو”باتوں کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ تنگ آکر اُس نے اپنی ساری بیکلیاں کاغذ پر اُتار کر رکھ دیں ۔۔ کرلو جو کرناہے۔
میں نے دیکھی ہے تری زلفِ دوتابھی لیکن
کٹ چُکی رات اِدھر وقتِ سحر کے تابع
تم ہوئے دُور تو احساس ہوا ہے مجھ کو
دل کی دھڑکن ہے فقط ایک خبر کے تابع
تری اُلفت نے تراشا بھی تو اک اور جہاں
زندگی ختم ہوئی یوں ہی سفر کے تابع
صاحبو! باغ کے باغیوں نے کبھی اپنی ناک پر مکھّی نہیں بیٹھنے دی، غزل کا یہ امروہی رنگ “چلندراٹ” کے ماتھے پر کیسے چڑھنے دیا۔۔۔؟ حیران کُن ہے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے، بیکل کے دو سے زیادہ شعری مجموعے چھپ چکے ہیں ۔ باقی جوہیں بوریوں میں تیار بیٹھے ہیں ۔ ہماری نیک صلاح ہے کہ اہلیانِ باغ اگر چنگی چاہیں تو بوریوں پر بٹھا کر بیکل کو کسی اچھے چھاپہ خانے میں پہنچا دیں ۔ اور مجموعوں کے ساتھ اُسے بھی کتابی شکل میں چھپوا لیں ۔ باقی باغیے آپ سیانے بیانے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں