نیوٹران ۔۔۔ معاذ بن محمود

پچیس جولائی تک فیس بک کی غیر مرئی دنیا کا درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے۔ اچھے خاصے پیارے دوست جو کبھی خالص ادب لکھا کرتے تھے آج کل بغض اور تعصب نگاری کے شاہکار دیے جارہے ہیں۔ لبرل کی جس تعریف سے میں آج تک آشکار ہوا ہوں، اس کے مطابق لبرل کہلانے میں کوئی عار نہیں۔ حیرت البتہ تب ہوتی ہے جب لبرل کی تعریف مادر پدر آزادی کے طور پر کرنے والے بہت ہی پیارے دوست بھی مجھے سوچ آزاد رکھنے کا حق نہیں دے پاتے۔ مقصد یہاں لبرلز پہ چوٹ مارنا نہیں۔ کئی مذہبی حلقوں کے نمائیندہ خلافت کے شیدائی بھی اس “کفریہ جمہوری نظام” میں راولپنڈی سے چڑھتے سورج کے خلاف لب کشائی پر پھبتیاں کستے دکھائی دیتے ہیں۔

ایسے پیاروں عموماً کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو ببانگ دہل کسی ایک سیاسی جماعت پہ ایمان لاتے دکھائی دیتے ہوں اور اپنی اس سیاسی وابستگی کا اظہار پروفائل پکچر کی ریڑھ مار کر کرتے بھی ہوں۔ ان رفقاء کی دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو سرعام اپنا یہ تعلق بتلانے سے گریز کرتے ہیں تاہم اندر ہی اندر یہ کسی ایک سیاسی جماعت کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ بھٹی صاحب نے آج سے کوئی سات سال پہلے ایسے بھائیوں کے لیے “نیوٹران” کی اصطلاح استعمال فرمائی تھی۔ 

مادے کی بنیاد جوہر یعنی ایٹم سے ہے۔ ایٹم کے مرکز میں پروٹان اور نیوٹران ہوتے ہیں جبکہ مرکز سے باہر الیکٹران اپنے مدار میں گھوم رہا ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ الیکٹران کی قسمت میں خوار ہونا لکھا گیا ہے۔ نیوٹران مرکز کے اندر رہتا ہے اور پروٹانز کو مرکز میں سمائے رکھتا ہے۔ موجودہ حالات میں ایک جماعت تو ویسے بھی منفی و معتوب و خوار الیکٹران ہے تاہم سدا کی مثبت مرکزی حیثیت رکھنے والی جماعتیں اپنے وجود کے لیے نیوٹرانوں کی مرہون منت تھیں، ہیں اور رہیں گی۔ نیوٹران جو خود کو معتدل غیر جانبدار کہتے ہیں مگر پروٹانز کو مرکز میں رکھنے کو جتے پڑے ہیں۔ 

تشویش ناک خبر یہ ہے کہ میرے چند نیوٹران بھائیوں کا پورا زور آج کل اس شخص کے بیانیے کو صفر سے ضرب دینے پہ ہے جو پہلے ہی بیٹی سمیت زنداں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ نیوٹران چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں کہ بیانیہ مر چکا لیکن بیانیہ ان کے سامنے کھڑا مسکراتے ہوئے استفسار کرتا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو اعلان کی نوبت کاہے؟ 

حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کو منظرنامے سے ہٹا کر ریاست کو کٹھ پتلی بنانے کا جرم کرنے والوں نے نہ تب اپنی حرکتوں سے کچھ سیکھا نہ اب سیکھ رہے ہیں۔ یقیناً یہ حکمت عملی کسی نشے کی لکیریں کھینچ کر قلیل المدت تقریر میں اپنی گھبراہٹ چھپانے جیسی ہے۔ اس مثال سے ایک سیاستدان یاد آگیا لیکن جانے دیجیے۔ اوپر والے کے حکم سے وہ بھی اوپر والوں کی دین ہے۔ افسوس کے ساتھ خدشہ ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ مستقبل میں یہ نشئی منصوبے اداروں میں فکری بانجھ پن اور نیند کی کمی نہ پیدا کر دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہرحال یہ بیانیے سے خوف زدہ نیوٹرانوں کا بیانیہ ہے۔ کامیاب ہوگیا تو ٹھیک وگرنہ اس قبیل کے دوستوں میں یو ٹرن کا معاملہ تو ویسے بھی عامیانہ سمجھا جاتا ہے۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply