ریحام نامہ – حصۂ دوم

ایڈیٹر نوٹ: ریحام خان کی کتاب سے لیے گئے اقتباسات کا یہ ترجمہ قارئین کی دلچسپی کیلئیے شائع کیا جا رہا ہے۔ مکالمہ کا لگائے گئے الزامات یا بتائے واقعات کی سچائی سے اتفاق ضروری نہیں۔ اگر کوئی جواب دینا چاہے تو مکالمہ حاضر ہے۔

نیلسن منڈیلا اور کوکین

آنے والے دنوں میں عمران گرفتار ہونے کے شدید خواہشمند تھے۔ وہ کسی طرح (سیاسی) شہید بننا چاہتے تھے۔ گرفتاری کے معاملے میں وہ اتنے پراعتماد تھے کہ انہوں نے اپنی خاص شے بھی بیت الخلاء میں بہا ڈالیں۔ لیکن عمران گرفتار نہ ہوسکے۔ 

راہنما

میں جب بھی اس سے عدم دلچسپی یا غلط فیصلوں کی شکایت کرتی وہ یہی کہہ کر مجھے خاموش کرا دیتا کہ “کیا تمہیں معلوم ہے کہ میری ماں بھی مجھے احمق سمجھتی تھی، مگر دیکھ لو میں کامیاب ہوگیا۔ تمہیں لگتا ہے تم مجھے مشورہ دینے کے قابل ہو؟ تم نے کیا کیا ہے آج تک؟ چار بندوں کا گروپ چلایا ہے؟ بس؟ کیا تم جانتی ہو میری بار جماعت کتنی بڑی ہے؟ تم خاک جانتی ہو لیڈرشپ اور انتظام سنبھالنے کے بارے میں؟”

یہ مولوی؟

“یہ مولوی؟ ہمم۔۔ یہ کچھ الگ ہے۔” میں نے کہا۔ “ہاں” عمران بولے۔ “یہ کافی علم والا بندہ ہے۔ ہمیں اسلامی سوالات کے جواب دینے کو کوئی بندہ چاہئے تھا تو ہم نے اسی کو کور کمیٹی میں ڈال دیا۔”  

وہ مجھے مارا پیٹا کرتی تھی!

میں نے غسل خانے سے باہر آتے اسے نفاست سے استری شدہ قمیض یا پرفیوم دیا اور مثبت لہجے میں بولا، “میں اس سے پہلے شادی کے سکھ سے آشنا نہ تھا”۔ میں نے پوچھا “کیوں؟ کیا جمائمہ گھر کا خیال نہیں رکھتی تھی؟” اس نے شکل بنائی اور بولا، “بے بی، اسے کچھ خاص دلچسپی نہ تھی۔ دن کا زیادہ تر حصہ وہ سو کر گزرا کرتی۔ اسے لندن کی پارٹیوں کی یاد ستایا کرتی تھی۔ اسے یہاں کے موسم اور گھر سے بھی نفرت تھی۔ پہلے دو سال بہت کٹھن رہے۔ شروعات میں جب ہم اسلام آباد کے ای سیون والے گھر میں شفٹ ہوئے تو وہ خوش تھی، مگر زیادہ عرصے کے لیے نہیں۔ وہ غصے کی بہت تیز تھی، اور اکثر غصے میں چیزیں اٹھا کر مجھ پہ دے مارا کرتی۔ ایک بات اس نے اپنی ٹانگیں مجھ پر رکھ کر چڑھنے کی کوشش کی۔ ایک اور بار اس نے مجھے فون دے مارا۔ ایک بات وہ مجھے گالیاں دیے جارہی تھی جس پہ میں نے اس کے چہرے پہ تھپڑ رسید کر ڈالے۔ وہ روتی ہوئی اپنے بھائی کے پاس گئی جس نے الٹا اسے مجھ سے معافی مانگنے کا کہا۔ میں اسے وہیں طلاق دینا چاہتا تھا مگر پھر انابیلے نے مجھے روک دیا۔ ایک اور بار وہ مجھ پر تپی ہوئی تھی اور مجھے مارنے کو آرہی تھی کہ میں نے اپنے دفاع میں ہاتھ اٹھایا اور اس کا بازو ٹوٹ گیا۔ اس مے بعد وہ پلس تر شدہ ٹوٹے ہوئے بازو کے ساتھ پھرتی رہی”۔ وہ ایسے ہنسا کہ جیسے یہ بہت مزاحیہ یادداشت ہو۔ 

محبت

زیادہ تر راتوں کو وہ مجھ سے ایسے لپٹ کر سوتا جیسے بچہ اپنی ماں سے۔ ابتدا میں مجھے اس کے محبت بھرے لہجے اور الفاظ پر یقین ہی نہ آتا۔ اس بات پہ یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو عوامی سطح پر اکھڑ مزاج اور جارحانہ مشہور ہے۔ اس کی آواز میں پائی جانے والی محبت ہمیشہ مجھے حیران کرتی۔ 

مصنوعی بال

ایک دن میں دراز میں سے مجرمانہ اشیاء کی صفائی کر رہی تھی کہ مجھے مصنوعی بال اگانے کے بعد کی جانے والی دیکھ بال کا پمفلیٹ ملا۔ ہئیر انسٹیٹیوٹ کے مطابق عمران مصنوعی بال اگانے کے بعد کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ میں نے انہیں کبھی نہیں بتایا کہ مجھے یہ سب ملا تاہم اس کے بعد سے میں نے تازہ ایلو ویرہ کی رطوبت سے ان کے سر پہ مالش کرنا شروع کر دیا تاکہ بالوں کی مضبوطی اور چمک بڑھ سکے۔ 

بیت الخلائی دہشت گرد 

دونوں کی بیت الخلاء سے متعلقہ طہارت انتہائی خراب تھی۔ مجھ جیسی صفائی ستھرائی کی خبطی کے لیے اس کا مطلب ان کے ہر استعمال کے بعد بیت الخلاء کی صفائی تھا۔ 

تحریک انصاف کی اندرونی دھڑے بندی

تحریک انصاف کے اپنے اندر کئی واضح دھڑے موجود تھے جو ہمیشہ طاقت اور تسلط کے لیے ایک دوسرے سے نبرد آزما رہتے۔ جہانگیر خان ترین کے دھڑے کے پاس گھر تک رسائی تھی۔ اس دھڑے کی اہم شخصیت پرویز خٹک، انعام اکبر، علیم خان، فراز احمد اور عون تھے۔ بعد میں چوہدری سرور بھی اس گروپ کا حصہ بن گئے تاہم انتظامی خصلتیں اور لگاتار چپقلش کے باعث ٹھیک سے گھل مل نہ سکے۔ مخالف دھڑا شاہ محمود قریشی کا تھا جس کی رسائی گھر تک نہ تھی۔ عمران کو شاہ محمود اور ان کی اہلیہ سخت ناپسند تھیں۔ انہیں صرف علیمہ خان کے اصرار پہ جماعت کا حصہ بنایا گیا۔ علیمہ، موبی اور شاہ محمود کے گروپ کو برداشت کرنے پر عمران مجبور تھے تاہم آپسی اختلافات سب پہ واضح تھے۔ ظاہر ہے، مجھے یہ تمام خرافات روزانہ کی بنیاد پر جھیلنے پڑتے۔ ایک اور دھڑا بھی موجود تھا جس کے وجود سے عمران بظاہر آگاہ نہ تھے۔ یہ دھڑا خاموشی سے اسد عمر کے زیر اثر تھا جس کے اہم ممبران میں شیریں مزاری اور نعیم الحق تھے۔ انیل مسرت بھی اس لابی کے بہت قریب تھے۔ اس دھڑے کی پسندیدگی جہانگیر ترین کی جیسی نہیں تھی۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے تو ویسے بھی شیریں مزاری کے خراب رویے سے خوب آگاہ تھے، تاہم ایک بار گھر کے اندر اس خاتون کے بارے میں ان کے سامنے میں اپنے شوہر کی گندی زبان سن کر میں سکتے میں آگئی۔ میرے لئے یہ انتہائی حیران کن تھا۔ 

بمشکل ایک عورت 

غیر متوقع طور پر خاتون اور ان کی بیٹی کے حق میں میری تمام تر کوششوں کا جواب مجھ پر حملوں کی صورت میں دیا جاتا۔ اس کے باوجود میری کوشش یہی ہوتی کہ میرا شوہر کسی خاتون کے بارے میں برے الفاظ اپنی زبان سے نہ نکالے، چاہے وہ خاتون مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں۔ تاہم عمران کا جواب ان کے بارے میں ہمیشہ یہی ہوتا کہ “چھوڑو بھی، شیریں تو بمشکل ایک عورت ہے”۔ 

کالی دال

نومبر کے ایک دن میں خوابگاہ پہنچی تو دیکھا کہ میرا نیا شوہر سفید چادر پر برہنہ کالی دال اپنے پورے جسم پر ملے لیٹا ہے۔ وہ شرمندگی سے ہنس پڑا کیونکہ اس وقت وہ کالی دال اپنے عضوئے خاص پر ملنے میں مصروف تھا۔ اس کے بعد وہ کھڑا ہوا اور دال چادر پہ ڈال دی تاکہ اورنگزیب، گھریلو ملازم، اسے ہٹا سکے۔ میں سکتے میں آگئی۔ عمران وضاحت دینے لگا کہ احد، اس کا بہنوئی ایک آدمی کو اس تک لایا جس نے اس علاج کا مشورہ دیا کیونکہ اس کے خیال سے عمران پر کسی نے کالا جادو کروایا ہوا تھا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ سب بکواس ہے تاہم شادی کو چند ہی دن ہوئے تھے لہذا میں نے اس خرافات پہ زیادہ بات کرنی مناسب نہ سمجھی۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply