25 جولائی کے بعد۔۔۔ مزاحمت اور مذمت۔۔۔نذر حافی

تبدیلی، متبادل چاہتی ہے، ہر متحرک کو ایک محرک کی ضرورت ہے، یہ خبر آپ تک بھی پہنچی ہوگی کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو پہلی رات جیل میں فرش پر سونا پڑا۔ یقین جانئے کہ میاں نواز شریف کو شاید زندگی میں پہلی مرتبہ بغیر بستر کے فرش پر سونا پڑا ہے، اس لئے اتنا واویلا مچایا گیا، ورنہ اس ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ جن کی ساری زندگی ہی بغیر بستر کے گزر جاتی ہے اور رہی بات جیل کی تو میاں صاحب کو شاید ابھی تک یہ احساس نہیں ہوا کہ جیل میں رہنے والے انسان بھی مختلف کلاسوں میں تقسیم ہیں۔ قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری کے نام خط لکھے ہیں، جس میں نواز شریف کو سہولیات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ کاش ہمارے ان حکمرانوں کو اس ملک میں بسنے والے دیگر افراد کا بھی اتنا ہی خیال ہوتا اور یہ دیگر لوگوں کو بھی انسان سمجھتے اور ان کی سہولیات کے لئے بھی اسی طرح تگ و دو کرتے۔

میاں نواز شریف تین بار 1990ء تا 1993ء، 1997ء تا 1999ء اور آخری بار 2013ء تا 2017ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں، اگر یہ جیل کی ہوا نہ کھاتے تو انہیں احساس ہی نہ ہوتا کہ جیل والوں کی بھی ضروریات ہوتی ہیں۔ اگر ہم نے عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا ہے تو صرف نعروں اور جلسوں سے یہ کام ممکن نہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خواص اور عوام کے درمیان رائج فرق کو مٹائیں اور جو سہولیات عوام کو میسر ہیں، وہی خواص کو فراہم کی جائیں اور جو محرومیاں عوام کا نصیب ہیں، ان میں خواص کو بھی شریک کیا جائے۔ خواص جب عوام کے ساتھ علاج کروائیں گے، ایک ہی گلاس سے پانی پئیں گے، سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو بھی داخل کروائیں گے اور ایک ہی پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کریں گے تو اس وقت انہیں عوامی مشکلات کا حقیقی احساس ہوگا ورنہ صرف نعرے لگا کر اور تقریریں کرکے عوام کو ٹرخاتے ہی رہیں گے۔ 25 جولائی کے بعد کیا ہونے والاہے! یہ ہم سب کو ابھی سے سوچنا چاہیے، کیا 25 جولائی کے بعد ہمارے سرکاری ہسپتالوں کا معیار اتنا بلند ہو جائے گا کہ ہمارے سیاستدان اپنا علاج انہی ہسپتالوں سے کروائیں گے؟

کیا پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال اتنی اچھی ہو جائے گی کہ ہمارا ممی ڈیڈی کہلانے والا طبقہ پبلک ٹرانسپورٹ سے ہی سفر کرے گا؟ کیا پینے کا صاف پانی عوام کو دستیاب ہوگا اور خواص منرل واٹر پینا ترک کر دیں گے؟ کیا ملک سے طبقاتی تعلیمی سسٹم ختم ہو جائے گا اور پوری قوم کو ایک جیسا معیاری نظامِ تعلیم فراہم کیا جائے گا؟ کیا ملک میں اردو زبان کو نافذ کر دیا جائے گا اور مقابلے کے امتحان میں اردو میڈیم والوں کو ترجیح دی جائے گی؟ کیا غریب غربا بھی اپنے بچوں کو کیڈٹ سکولوں میں داخل کروا سکیں گے؟ کیا جیلوں میں جلنے والے جسموں کو اے سی کی سہولت مہیا ہو جائے گی؟ کیا تھانے اور کچہریوں میں رائج فرسودہ سسٹم کا خاتمہ ہو جائے گا اور رشوت اور کرپشن کی جگہ اصول اور دیانتداری کا سکہ چلے گا۔؟ اگر نہیں تو پھر 25 جولائی کو کیا ہونے والا ہے!؟ یہ الیکشن کا سلسلہ کیوں ہے، یہ ووٹ کی مانگ کیوں ہے اور یہ ووٹر کی خوشامد کیوں جاری و ساری ہے؟ اگر ہمارے ہاں کا ووٹر انتخابات میں موثر نہیں ہے تو پھر اسے انتخابات کے بائیکاٹ پر کیوں اکسایا جاتا ہے اور اگر موثر ہے تو پھر اس کی مناسب رہنمائی کیوں نہیں کی جاتی!؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کون ہے جس نے اس ووٹر کو بتانا ہے کہ اگر تبدیلی چاہتے ہو، مملکت کو سنوارنا چاہتے ہو، اگر ملک کو سنبھالنا چاہتے ہو تو اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کرو، اس تبدیلی کے لئے ایک متبادل فراہم کرو اور مثبت راہوں پر حرکت کرنے کے لئے خود ہی محرک بنو! اگر ووٹر باہر نہیں نکلے گا، تبدیلی کے لئے متبادل تجویز نہیں کرے گا، حرکت کے لئے محرک نہیں بنے گا تو یقیناً کچھ بھی تبدیل ہونے والا نہیں، لیکن اگر ووٹر متبادل کو منتخب کرے گا اور تبدیلی کے لئے محرک بنے گا تو اس کے اثرات کبھی بھی زائل نہیں ہونگے۔ یہ وقت ہے عوامی، انسانی اور جمہوری حقوق کی خاطر عوام دشمن طاقتوں کے خلاف مزاحمت اور ان کی مذمت کرنے کا، اگر اس وقت ہم نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد نہ کی تو پھر 25 جولائی کے بعد حالات پر اشک شوئی اور حکمرانوں کی مذمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر ہم نے بروقت اپنے حقوق کے لئے حرکت نہیں کی اور ووٹ کی طاقت کا مناسب استعمال نہ کیا تو پھر اشرافی طبقہ جیل میں اے سی اور بستر لگا کر یہ وقت گزار لے گا اور ہم ہمیشہ کی طرح بغیر بستر کے حبسِ بے جا میں پڑے رہیں گے۔ازا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply