ریحام نامہ – حصہ اوّل

ایڈیٹر نوٹ: ریحام خان کی کتاب سے لیے گئے اقتباسات کا یہ ترجمہ قارئین کی دلچسپی کیلئیے شائع کیا جا رہا ہے۔ مکالمہ کا لگائے گئے الزامات یا بتائے واقعات کی سچائی سے اتفاق ضروری نہیں۔ اگر کوئی جواب دینا چاہے تو مکالمہ حاضر ہے۔

ریحام کی کتاب اچانک شائع ہوگئی۔ کتاب کی اطلاع بلال بھٹی نے دی جو بڑا پیارا آدمی ہے۔ ایمیزون پہ کنڈل فارمیٹ میں کتاب کی دستیابی میرے لیے خوشی کا باعث تھی کہ کنڈل میرے پاس موجود تھی، یہ الک بات ہے کہ آڈیو کتابوں کے حق میں کنڈل ریڈر کو دستبردار کرنے کے بعد اپنے بیٹے کے حوالے کر چکا تھا۔ فورا سے پیشتر بیٹے سے کنڈل ریڈر واپس لی اور کتاب خرید کر پڑھنا شروع۔ 

دہشت زدہ، آسیب زدہ وغیرہ جیسے الفاظ میں کسی نہ کسی کا “زدہ” ہونا یعنی کسی خطرناک شے کا شکار ہونا لازمی ہے۔ بعینہ ریحام زدگی کی اصطلاح جس کسی نے بھی ایجاد کی اسے ماننا پڑے گا کہ کتاب میں ریحام کے شمار معتوبین کی ترجمانی فرمائی۔ کتاب میں ریحام نے اپنے تئیں اپنی زندگی کھلی کتاب کی طرح سامنے رکھ دی ہے۔ اب یہ پڑھنے والے پر ہے کہ وہ ریحام کے بیان کیے گئے قصص پر کس حد تک یقین رکھتا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ اگر آپ جناب عمران خان صاحب سے عقیدت کی حد تک محبت رکھتے ہیں تو یہ کتاب آپ کے لیے واقعتاً مضر صحت ہے۔ ظاہر ہے، تقدیس کا بت بنا کر اس کی تعظیم کرنے والے دوست اس کتاب کی اشاعت سے سیخ پا ہیں کہ مبینہ طور پہ کتاب میں توہین عمرانی کی حدیں پار ہیں۔ ہمارا البتہ یہ ماننا ہے کہ ہر فریق کو سنا جانا انتہائی اہم ہے۔ سنتے آئے ہیں کہ رائی کے بغیر اتنے بڑے پہاڑ کھڑے کرنا آسان نہیں۔ زیادہ مشکل تب ہوتی ہے جب ریحام بی بی ای میلز اور دیگر مبینہ قابل اعتراض مواد کی تصاویر اور سکرین شاٹس اپنے پاس ہونے کا دعوی بھی کرتی ہوں اور دوسری جانب جواباً ہتک عزت نوٹس بھیجنے تک سے گریزاں ہوں۔

قوی امید ہے کہ کتاب پڑھنے اور اقتباسات پیش کرنے کی پاداش میں ذات پہ بھی سوال اٹھائے جائیں گے تاہم یاددہانی کرواتا چلوں کہ بندے نے میاں صاحب کے اچھے دور میں کم بارکر کو پڑھا اور اقتباسات شئیر کیے۔ تب لکھنے یا شئیر کرنے کی عادت پختہ نہیں تھی جو آج پکی ہوگئی ہے لہذا اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ 

امید

میں بتیس سال کی عمر میں تین بچوں کی ماں تھی۔ میرے پاس کوئی پیسہ، دوست یا خاندان نہیں تھا۔ میرے پاس ملازمت کا کوئی آسرہ نہ تھا اور کوئی بندہ میری مدد کو تیار نہیں تھا۔ مگر میرے پاس ان تمام چیزوں سے بڑھ کر اہم شے موجود تھی۔ میرے پاس امید تھی۔ 

خود اعتمادی

خود اعتماد شخص کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں کسی کو شک تک نہیں گزرتا کہ وہ خوفزدہ ہے۔ ایک جنگجو کی زندگی تنہائی کا شکار ہوتی ہے۔ 

ڈیڑھ ہوشیاری

ایک اور موقع پر جب وہ (ڈاکٹر اعجاز) امریکہ میں غیر قانونی تارک وطن تھے، پولیس نے انہیں ٹریفک اشارے کی سرخ بتی کراس کرنے پر روکا۔ پولیس افسر نے انہیں خاموشی سے پولیس کی گاڑی کے قریب جاکر پچھلی سیٹ سے سو ڈالر رشوت پھینکنے کو کہا۔ اعجاز نے ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں ایک ڈالر کا نوٹ شیشے سے اندر پھینکا اور خوشی خوشی گاڑی چلاتے ہوئے واپس آگئے۔ ٹھیک ایک ہفتے بعد اسی پولیس افسر نے انہیں ایک بار پھر روکا اور اب کی بار چار سو ڈالر کا جرمانہ دے ڈالا۔ 

ایک دوسرے کے لیے بنایا گیا جوڑا

“میں بڑے کاموں کو دیکھوں گا، تم چھوٹے کام دیکھنا”۔ یہ اس شخص کے الفاظ تھے جسے مجھ سمیت کئی برطانوی نژاد ایشیائی باشندوں نے 2013 میں ووٹ دیا تھا۔ یہ بات انہوں نے مجھے یہ باور کرانے کو کہی کہ ہم ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہیں۔ 

فاتحانہ خطاب

“میں کبھی تم جیسی عورت سے نہیں ملا۔ اس قدر سیدھی، باہمت۔ صرف تم ہی میری راہنمائی کر سکتی ہے۔ میں یہاں کھڑا فاتحانہ خطاب کروں گا اور نیچے تمہارے مسکراتے چہرے پہ نظر ڈالوں گا۔ بے بی، مجھے تمہاری مسکراہٹ سے عشق ہے”۔ وہ واپس تصور میں چلے جاتے۔ 

میکیاویلی طریقے 

یوں دونوں کے درمیان بنی گالا کے اس کمرے میں قدرتی طور پر ایک بحث شروع ہوگئی۔ عمران کا اصرار تھا کہ ایسی سیدھی حکمت عملی ٹھیک مقصد تک پہنچاتی ہے جبکہ ساحر نے دلیل دی کہ میکیاویلی کے طریقے غیر اخلاقی اور اپنی روح میں سیاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ کتاب ایک چالاک طنز تھی۔ عمران نے البتہ ایسی تکنیک کی تعریف جاری رکھی۔ 

میسجنگ

مجھ پہ یہ بات آشکار ہونے کو تھی کہ ایسی لگاتار میسیجنگ اس کا سٹائل ہے۔ 

جہاں تم وہاں ہم

میں نے جواب دیا کہ میں بنوں میں IDPs کے ساتھ عید کا وعدہ کر چکی ہوں۔ عید سے پچھلی رات نعیم الحق نے مجھے فون کیا اور یہ پوچھ کر مجھے حیران کر دیا کہ کیا میں دوسرے اینکرز کے ہمراہ عمران کے ساتھ ہوائی سفر کر کے عید منانا کروں گی۔ عمران فوراً ہی اپنی عید بھی IDPs کے ساتھ منانے کا بندوبست کر لیا تھا۔ 

جاوید چوہدری کی عقابی نگاہیں

میرا اصل پلان بنوں میں چندے کے ذریعے کام کرنے والی تنظیم الخدمت کے ساتھ بذریعہ سڑک سفر کا تھا تاہم میں عمران کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سفر پہ آمادہ ہوگئی۔ دوران سفر عمران کا رویہ ایک نوجوان لڑکے کے سکول ٹرپ جیسا رہا جس میں کئی بار موقع پا کر وہ اپنے جوتے سے میرا جوتا چھوتے رہے، یہ ایک ایسی حرکت تھی جو عقابی نگاہ رکھنے والے اینکر جاوید چوہدری سے نہ بچ سکی۔ 

پرویز خٹک کے بارے میں کلمات 

میں نے عمران کو اپنے وزیر اعلی کو گالیاں دیتے سنا۔ واضح طور پر یہ پہلی بار نہیں ہورہا تھا۔ “اس حرامی نے مجھ سے یہ کروایا”۔ وہ عاطف خان پر چلائے۔ 

“ان” کے وعدے

مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ عمران کے ساتھ وعدے کیے گئے تھے کہ اگر وہ دارالحکومت تک پہنچ گیا تو نواز چلا جائے گا اور حکومت اسے مل جائے گی۔ میں نے پورا ستمبر ایک ٹوٹے ہوئے شخص کے ساتھ تعزیت میں گزارا جو خود کو فریب کھایا محسوس کرتا تھا۔ 

مجھے۔۔ پائے پسند ہیں

اس نے یہاں تک کہا “تمہاری ٹانگیں ان تصویروں میں واقعی میں زبردست ہیں جو تمہارے بی بی سی کے دنوں میں کھینچی گئیں”۔ بظاہر ذاکر اس کا تعارف “بی بی سی کے حسن” سے کروا چکا تھا۔ مجھے اس کا یہ پوچھنا بھی یاد ہے کہ کیا اب بھی تمہاری ٹانگیں زبردست ہیں جسے نظرانداز کرتے ہوئے میں نے کہا کہ وہ حادثے میں تباہ ہوگئی تھیں۔ 

میرے تحفے واپس کرو

میں عمران کو دو ملازمتوں کے درمیان پھنسے ہونے اور اپنی تنخواہ کے مسئلے کے بارے میں بتا چکی تھی۔ انہوں نے فاتحانہ انداز میں فون اٹھایا اور نعیم الحق کو تاکید کی کہ چینل سے میرے پیسے دلوائے، جو انہوں نے بغیر کسی چون و چراں فوری طور پر دے ڈالے۔ پاکستانی میڈیا میں کسی نے عمران کو انکار نہیں کیا۔ عمران نے مجھے پیش کش کی کہ جب تک میرے پیسوں کی ادائیگی نہیں ہوتی وہ لندن میں میرے بچوں کے لیے کرائے کے پیسے بھی بھیج دے گا، جبکہ اس سے پہلے وہ مصر تھے کہ شادی میں چند ہفتے ہی باقی ہیں اور شادی کے بعد میں ٹی وی پہ کام نہیں کروں گی۔ میں نے اسے یاددہانی کروائی کہ نہ میں نے شادی کی حامی بھری ہے اور نہ ہی ٹی وی پہ کام چھوڑنے کی تاہم وہ فاتحانہ انداز میں مسکرا دیا۔ اب یعنی چند ہی ہفتوں بعد وہ مجھے اس جھگڑے کی وجہ سے بلیک بیری میسینجر سے ڈیلیٹ کر چکا تھا۔ مجھے ایک ٹیکسٹ میسج بھی ملا جس میں مجھ سے پیسوں کی واپسی کا تقاضہ کیا گیا تھا۔ میں پہلے ہی اس کے ڈرائیور کو چیک دینے کے لئے کال کر چکی تھی مگر اس قسم کا میسج ملنا مجھے ایک گھٹیا حرکت محسوس ہوئی۔ یہ (قریب 450 ڈالر) کوئی اتنی بڑی رقم نہ تھی اور مجھے لگتا تھا کہ اتنا نیچے نہیں گرے گا کہ اتنی چھوٹی رقم کے لئے اتنا گر جائے گا۔ 

کنٹینر پر آؤ ناں 

دو ہفتے مزید گزر گئے۔ اس نے اپنا انداز اس قدر نرم کر ڈالا جو اس کی جانب سے بہت کم لوگوں کو سننے کو ملا ہوگا۔ “لیکن ڈارلنگ جب مجھے شک ہو تو مجھ سے لڑا مت کرو۔ میرے شکوک و شبہات دور کیا کرو۔ میرے سوالات کے جوابات دیا کرو۔ بس”۔ اگلی بات جو میں نے سنی وہ “میں نے تم سے ملنا ہے” تھی۔ “مگر کیسے؟ تم تو اس احمق کنٹینر پہ چڑھے ہوئے ہو؟”۔ “تو کنٹینر پہ آجاؤ”۔ 

کنٹینر ۔۔۔ جہنم کا چھید

“میں صرف تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں”، اس نے منت کی۔ “صرف چند لمحوں کے لیے، کسی دوست کے ساتھ آجاؤ۔ میں اس جہنم کے چھید میں پھنسا ہوا ہوں۔ مجھے تازہ ہوا چاہئے”۔ یہ جہنم کا چھید اس کی اپنی پیش قدمی کی تخلیق تھا جس کا نام “دھرنہ” تھا۔ 

پیار، عشق اور محبت

میں اس کی حفاظت کے بارے میں فکرمند اسے خبردار کرنا چاہتی تھی۔ اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر غیر متوقع طور پر سب کے سامنے میرا گھٹنہ چھو لیا۔ میں شرمندگی سے اچھل پڑی مگر اس پہ کوئی فرق نہ پڑا۔ وہ اپنی سوچ سب کے سامنے واضح کر چکا تھا۔ علیمہ اپنی خاتون کزن کے ساتھ پہنچی اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئی۔ ہماری سیاسی بحث جاری رہی۔ کسی بھی موقع پہ میں اور عمران تنہا نہ تھے۔ کچھ دیر بعد مجھے کنٹینر کی چھت پر لے جایا گیا۔ یہاں میں نے چند دیگر اینکرز کے ساتھ اس کی تقریر سنی۔ وہ تقریر کر کے سٹیج کے کونے پہ میرے پاس آیا اور میرے ساتھ بیٹھ گیا اور کہا “کیا تم جانتی ہو میں کس قدر بری طرح تمہیں بوسہ دینا چاہتا ہوں؟”۔

پاشا پلان

یہ بھی واضح ہوگیا کہ عمران کو اس ماہ کے اختتام تک بیوی کیوں چاہیے۔ دراصل عمران کو وزارت عظمی کی توقع تھی۔ جاوید ہاشمی بھی اپنی پریس کانفرنس میں اس منصوبے کا انکشاف کر چکے تھے، عمران احتجاج کے دباؤ کا شکار ہوکر انہیں بتا چکے تھے کہ نیا چیف جسٹس پارلیمینٹ تحلیل کر دے گا اور انتخابات ستمبر میں ہوں گے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)۔



 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ریحام نامہ – حصہ اوّل

  1. اقتباسات پیش کرنے کا شکریہ. میرا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ یہ ایک فریق کی کہانی ہے دوسرے فریق یا تو اسے چیلنج کریں یا اپنا نقطہ نظر پیش کریں تاکہ اصلیت کے قریب پہنچنے کی کوشش کی جا سکے.

Leave a Reply