• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یمنی بحران،اندھی،بہری،گونگی دنیا۔۔۔۔ثاقب اکبر

یمنی بحران،اندھی،بہری،گونگی دنیا۔۔۔۔ثاقب اکبر

یمن پر سعودی قیادت میں قائم فوجی اتحاد نے 25 مارچ 2015ء کو حملے کا آغاز کیا۔ 25 جون کو اس جارحیت کے مسلسل 40 مہینے مکمل ہوگئے ہیں۔ تین برس میں ہزاروں یمنی سعودی اتحاد نے قتل کئے، تاکہ انہیں ”باغیوں“ سے ”نجات“ دلا سکے اور ایک بزعم خود قانونی حکومت بحال کرسکے۔ یاد رہے کہ یہ ”باغی“ صدیوں سے یمنی ہیں اور ”نجات دہندہ“ بننے والے سعودی، اماراتی، مصری، سوڈانی، امریکی، برطانوی اور اسرائیلی وغیرہ ہیں۔ زیادہ تر مقتول عام شہری ہیں، جن میں ننھے منھے بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اتحادیوں کی تباہ کن بمباریوں اور حملوں سے فیکٹریاں، کارخانے، ہسپتال، سڑکیں، پل، سکول، بڑی عمارتیں، یہاں تک کہ کھیت اور کھلیان سب برباد ہوچکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان یہ سوچ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ یمنی کس طرح سے اپنے ملک کا ان جارحین سے دفاع کر رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور دنیا بھر کے میڈیا سنٹر، انسانی حقوق کے ادارے، یہاں تک جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں اندھی اور بہری ہوچکی ہیں، گویا ان کے نزدیک یمنی انسان تو نہیں جانور بھی نہیں۔ لیکن کیا اس اندھی اور بہری دنیا نے یمنی مظلوموں کے بارے میں جو خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اس سے وہ یمنیوں کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرسکیں گے، کیونکہ ان کی آرزو تو یہی ہے کہ یمنی ہتھیار ڈال دیں۔ ہم جس قدر یمن کی دفاعی قوتوں کو جانتے ہیں اور جس قدر جارحین کی ہمیں پہچان ہے، اس کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن جلد آنے والا ہے، جب حقائق خود چیخ چیخ کر اپنے آپ کو آشکار کریں گے۔ شکست خوردہ ممالک کی افواج اور ان کے لے پالک اور تربیت یافتہ دہشت گرد جب ناکام اور نامراد لوٹیں گے تو پورس کے ہاتھیوں کی طرح اپنی ہی فوج کو روند ڈالیں گے۔

تاریخ حاضر میں ایسے شواہد موجود ہیں، جن کی مدد سے ہم اپنے نقطہ
نظر کو ثابت کرنے کے لئے بات آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ہم یہ بات تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ تاریخ میں ایک فضائی فوج نے اپنے زمینی دشمنوں کو شکست دی تھی، لیکن عصر حاضر میں فضائی حملوں نے وہ نتائج پیدا نہیں کئے، جو دنیا کی زبردست فضائی قوت رکھنے والی طاقتوں کے ملحوظ نظر تھیں۔ اسرائیل کی فضائیہ کو بہت طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ 2006ء میں 33روز تک لبنان پر اسرائیل کے وحشت ناک حملوں کے بعد حزب اللہ نے کامیابی کا جشن منایا اور اسرائیلی قیادت نے اپنی شکست کا اعتراف کیا۔ اسی طرح 51روز تک اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پر ہولناک بمباری کے بعد دیکھا کہ غزہ کی سڑکوں پر عوام حماس و جہاد اسلامی کی حمایت میں اور اپنی استقامت و کامیابی پر مظاہرہے کر رہے تھے۔ امریکہ نے اپنی اور ناٹو اتحادیوں کی زبردست فضائی قوت طالبان کے خلاف جھونک دی، لیکن وہ طالبان کو نہ فقط ختم نہ کرسکی بلکہ آج بھی افغانستان کے زیادہ تر علاقے طالبان کے قبضے میں ہیں۔ عصری تاریخ سے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یہ سمجھا کہ ان کے پاس زبردست فضائی قوت موجود ہے۔ صنعا پر موجود انصار اللہ اور اس کے حامی ان حملوں کی تاب نہیں لاسکیں گے۔ نیز ان کے علم میں تھا کہ انصار اللہ کے پاس زمینی طور پر بھی وہ ٹینک، توپیں اور بکتر بند گاڑیاں موجود نہیں، جو انہیں مخالفین کے خلاف کامیابی دلوا سکیں۔ لہٰذا اس نے 25 مارچ 2015ء کو جب ”عملیة عاصفة الحزم“ (Opration Thunder Storm) نامی حملے کا آغاز کیا تو ساتھ یہ بھی کہا کہ دو ہفتے کے اندر اندر ”باغیوں“ کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور وہاں پر عبدربہ منصور ہادی کی قانونی ”حکومت“ بحال کر دی جائے گی، لیکن اپنی تمام تر قوت قاہرہ کے باوجود سعودی اتحاد کو نہ فقط مطلوبہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی بلکہ آگے سے ایسے جہاد پیشہ اور قوت ایمانی سے سرشار سپاہیوں کا سامنا کرنا پڑا، جو تمام تر مادی وسائل سے محروم ہونے کے باوجود اس جارحیت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔ عاصفة الحزم تو ناکام ہوگیا، جارحیت کا نیا نام ”عملیة اعادة الامل“ (Operation Restoring Hope) رکھا گیا اور یہ امید ابھی تک زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔

انتہائی کم وسائل رکھنے والے یمنیوں کے دفاعی جذبے کے مقابلے میں جب ہم سعودی اتحاد کے وسائل پر نظر ڈالتے ہیں تو انسان انگشت بدنداں ہو کر رہ جاتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس اس وقت 675 جنگی جہاز، 233500 فوجی، 7960 ٹینک، 25000 بکتر بند گاڑیاں اور دیگر وسائل موجود ہیں۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کے پاس 497 جنگی جہاز ہیں، دیگر فوجی وسائل اس کے علاوہ ہیں۔ سعودی اتحاد کے ساتھ سوڈان، مصر اور دیگر ملک کے سپاہی بھی شریک جنگ ہیں۔ یمن کی چھوٹی سی ریاست کو زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کا سامنا ہے۔ اس ساری صورتحال میں جب ہم یہ سنتے ہیں کہ انصار اللہ کو ایران کی حمایت حاصل ہے تو دروغ گوئی اور کذب بیانی کے اس درجے پر افسوس ہوتا ہے۔ سعودی اتحاد مسلسل حملہ آور ہے، تباہی پھیلا رہا ہے، خون بہا رہا ہے، انسانوں کو بھوکا مار رہا ہے، ہر طرف سے انسانی امداد تک کے وسائل کی فراہمی کے راستے بند ہیں، ہر ممکنہ امداد، امدادی جہاز کو بھی جارحین چیک کرتے ہیں، اس کے باوجود دنیا میں یہ جھوٹ پھیلایا جارہا ہے کہ یہ ایران اور سعودی عرب کی جنگ ہے۔

تف ہے اس جھوٹی اور مکار دنیا پر اور حیرت ہے ان کی آواز پر کان دھرنے والوں پر۔ البتہ انصار اللہ اور اس کے حامیوں کی استقامت نے دنیا کو ضرور ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اس لئے لگتا ہے کہ ضرور انہیں باہر سے امداد پہنچ رہی ہے یا ان کی صفوں میں گویا پہلے سے باہر سے آئے ہوئے فوجی موجود ہیں۔ باہر کی امداد تو اس زمینی، آسمانی اور بحری ناکہ بندی کے بعد ممکن نہیں اور انصار اللہ کی صفوں میں اگر کوئی غیر ملکی ہوتا تو دنیا میں سب سے زیادہ تصویریں اسی کی نشر ہوچکی ہوتیں، جبکہ ان کے مقابلے میں ملکوں ملکوں کی فوجیں صف آراء اور حملہ آور ہیں۔ دنیا کی حیرت کی ایک وجہ انصار اللہ ہے، جنھیں حوثی باغیوں کے نام سے پکارا جاتا ہے، کی حمایت میں نکلنے والے لاکھوں لوگ ہیں۔ یہ لاکھوں لوگ کون ہیں، جو صنعا میں انصار اللہ کی حمایت میں بار بار نکل کر آتے ہیں۔ دیگر شہروں میں بھی انصار اللہ کے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، ہر خوف و خطر سے بے نیاز لوگ نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں یوم القدس کے موقع پر روزے کی حالت میں لاکھوں کا پرجوش اجتماع قدس کی آزادی کے لئے نعرہ زن تھا۔ یہ اجتماع الموت لامریکہ اور الموت لاسرائیل کے نعرے لگا رہا تھا۔ اپنے دشمنوں کی ماہیت کو بھی آشکار کر رہا تھا اور ان اسباب کو بھی بیان کر رہا تھا، جو ان پر جارحیت کا باعث بنے ہیں۔

ابھی تک بظاہر امریکہ، برطانیہ اور فرانس یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سعودی اتحاد کو فقط انٹیلی جنس اور لاجسٹک امداد فراہم کر رہے ہیں، لیکن ایک دنیا جانتی ہے کہ سعودی اتحاد کی جارحیت کے پیچھے یہی عالمی قوتیں کارفرما ہیں، جنھوں نے اربوں ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو فراہم کیا ہے اور ہر روز اسلحے کی کسی نئی ڈیل کی خبر منظر عام پر آتی ہے۔ اسرائیل بھی پیچھے نہیں بلکہ عملاً شاید اپنے سرپرستوں کی نسبت سعودی اتحاد کی کمک میں زیادہ آگے ہے۔ اس کی اگرچہ بہت سی تفصیلات ہیں، لیکن مختصراً ہم چند امور کی طرف توجہ دلاتے ہیں:
٭ سعودی سفارت خانے کی عمارت انصار اللہ کے قبضے میں آئی تو اس میں موجود اسرائیلی اسلحہ ان کے ہاتھ لگا۔
٭ یمنی فوج کے ایک کرنل صالح محمود نے کہا ہے کہ سعودی فضائی اڈے خالد ولید پر یمنی میزائل حملے میں 20 اسرائیلی افسر اور 60 سعودی افسر مارے گئے۔ ان میں سعودی فضائیہ کا ایک اعلٰی افسر محمد شیلان بھی شامل ہے۔

٭ ایک فوجی ویب سائٹ veteranstoday نے اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ یمنی فوج نے جو ایک F-16 طیارہ مار گرایا ہے، اس سے اس جنگ میں اسرائیل کی مداخلت کا ایک اور ثبوت ہاتھ آیا ہے کیونکہ 16-B نوعیت کا یہ طیارہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں۔
٭ ایک دفاعی تجزیہ کار ٹوماس ویگنر نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ یمن پر بعض سعودی فضائی حملوں کی فلموں سے معلوم ہوتا کہ سعودی عرب نے اسرائیل کی مدد سے MOP بم استعمال کئے ہیں۔ اس جنگ میں پہلی مرتبہ GUB-28 bunker buster bombs استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ وہی بم ہیں جن کے استعمال کی اسرائیل کی طرف سے ایران کو دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔
ہم اپنے قارئین کے لیے یہ سوال چھوڑے جاتے ہیں کہ کیا اسرائیل کی طرف سے سعودی اتحاد کے ساتھ اس سطح کا تعاون امریکی تائید اور حمایت کے بغیر ہوسکتا ہے۔؟ یہ مضمون ختم کرتے ہوئے ہم کہیں بھول نہ جائیں کہ ہم نے سطور بالا میں کہا تھا کہ تاریخ میں ایک فضائی فوج نے اپنے زمینی دشمنوں کو شکست دی تھی، ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ وہ فضائی فوج ابابیلوں کی تھی، جنھوں نے ہاتھی والوں کا بھرکس نکال دیا تھا، اب کے ہاتھی والوں نے یمن کا رخ کر لیا ہے اور ابابیلیں زمین پر اتر آئی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کب ہاتھی والوں میں سے بچے کھچے اپنے عبرتناک انجام کی خبر لے کر اپنے اپنے وطن کو لوٹیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply