• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عوامی فلاحی طرز کےاصلاحاتی جہاد کی ضرورت ہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

عوامی فلاحی طرز کےاصلاحاتی جہاد کی ضرورت ہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

پچھلے دو دنوں کے قومی اسمبلی کے سیشن میں چئیرمین پبلک اکاؤنٹ کمیٹی اور وزیر دفاع نے پارلیمان میں کھڑے ہوکر جو چوری کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں ان سے اس ملک میں بدعنوانی پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی ہے اور اس میں جو حیران کن بات تھی وہ یہ ہے کہ یہ ٹیکس چور پارلیمان کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں اور اُس گھڑی بھی شائد وہیں موجود ہوں۔ تو اس سے کیانتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ کیا اس طرح کے نظام سے بہتری کی امیدیں وابسطہ کی جاسکتی ہیں؟

پارلیمانی نظام کی تو برطانیہ میں ایک کامیاب مثال موجود ہے مگر وہی نظام ہمارے ہاں فائدہ دینے سے خالی ہے۔ اس کی اصل وجہ ہم خود ہیں۔ اس میں پارلیمانی نظام سیاست کا تو کوئی لینا دینا نہیں۔ اصل معاملہ تو ہمارے بحثیت قوم معاملات کا ہے جنہوں نے اس نظام کو چلانا ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے لوگ پارلیمان میں پہنچ کیسے جاتے ہیں۔ ان کی کہیں بھی کوئی سکروٹنی نہیں ہوتی؟ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلقات اور حوالہ جات چلتے ہیں۔ سفارش کلچر پنپ چکا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست کاروبار بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں عدالتیں انصاف نہیں کرتیں۔ ہمارے ہاں ٹیکس ریونیو کے ادارے اپنے فرائض صحیح ادا نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں احتساب کا عمل شفاف نہیں ہے۔ انتظامیہ کے سامنے کئی رکاوٹیں ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہمارے ہاں ان سارے معاملات کو درست کرنے کا قانون موجود نہیں۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ اور عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ پھر وہی وجوہات سامنے آجاتی ہیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ جب ہر سطح پر چور بیٹھا ہو تو پھر چوروں کا حساب کون کرے گا۔ کل ہی ایک صحافی خبر دے رہا تھا کہ فیڈرل جوڈیشل کمیشن میں ایک اسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر صاحب کے خلاف چوری کی کئی رپورٹس ہیں جن میں شائد مبینہ طور پر وہ مفرور بھی ہیں اور وہ ایک اہم عہدے پر کام بھی کر رہے ہیں اور ان کو اس عہدے پر بھرتی کروانے والے ایک اعلیٰ عدلیہ کے چیف ہیں۔ اب ان کے علم میں اگر پہلے نہیں بھی تھا تو اب تو آچکا ہوگا۔ اور جب اس آفیسر کے بارے معلومات حاصل کرنے کے لئے رجوع کیا گیا تو وہ صاحب خود ہی وہ معلومات بھی دے رہے ہیں جن میں وہ اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔

ایسا ہی حال ہر سطح پر ہے۔ عدالت عظمیٰ میں ججز کے مفادات سے ٹکراؤ کی درخواستیں آتی ہیں مگر وہ اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتے۔ اس ملک میں ہر کوئی اس ملک کی زبردستی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ اس زبردستی خدمت کے پیچھے جذبے کی بنیاد ان کی اپنی مالی، سیاسی اور مفاداتی مجبوریاں ہیں۔ اگر انہوں نے ایمانداری سے اس ملک کی خدمت کرنی ہوتی تو وہ اتنا زیادہ سرمایہ خرچ اور پاپڑ بیل کر اس خدمت کے عہدے کو حاصل ہی کیوں کرتے۔ پارلیمان کو ہی دیکھ لیجئے کہ ممبر پارلیمان قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے لئے کروڑوں کے ٹکٹ خریدتے ہیں اور پھر الیکشن کے اخراجات۔ کئی ممبران کو تو عمر گزرجاتی ہے الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے۔ اور جب پارلیمان میں وہ پہنچتے ہیں تو کیا وہ اپنے پچھلے حساب برابر نہیں کریں گے۔ پھر ان کو یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ پانچ سال کے بعد دوبارہ الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ اسکا بھی بندوبست کرنے کی فکر ان کو لاحق ہوتی ہے۔

اب یہ تنخواہوں جن کا ذکر خیر پارلیمان میں روزانہ ہوتا ہے۔ کل بھی سپریم کورٹ اور کئی اور اداروں جن میں پاور اویلیوایشن وغیرہ کے بورڈز کی بات ہوئی تو ان بارے قوانین بھی پارلیمان نے ہی بنائے ہونگے جو ان کو اپنی تنخواہیں بڑھانے کا اختیار دیتے ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ پارلیمان بھی اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہیاں کرتی رہی ہےجس کی بنیاد پر امتیازی ماحول نے جنم لیا اور اب یہ بے اصولیاں صاحب اولاد ہوگئی ہیں۔ ہمارے نظام میں اس کی جڑیں اسقدر مضبوط کر چکی ہیں کہ ان کو اکھاڑنا مشکل ہوچکا ہے۔

اب پارلیمان کی ایک بے بسی یہ بھی ہے کہ ان کی اصل مشینری تو بیوروکریٹس ہیں جن کو ہمیشہ رہنا ہوتا ہے اور اصل اختیارات ان کے پاس ہیں۔ اور جو بھی قانون بنتا ہے وہ اپنے مفادات کو پہلی ترجیح پر رکھتے ہیں۔ اور اگر پارلیمان ان کے ساتھ تعاون نہ کریں تو پھر وہ بھی تعاون سے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح پارلیمان کے ممبران بھی چونکہ آتے جاتے رہتے ہیں اور وہ بھی اپنے مفادات کی سوچ کے پیش نظر نظام کی خرابیوں میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔

اب ان سارے معاملات کی بنیادی وجہ جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ ہماری اخلاقی حالت زار ہے۔ ہم پستی کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اب ہمیں یہ مسائل نظر ہی نہیں آتے اور جو ان کے بارے بات کرے وہ باؤلہ لگتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ان بد عنوانیوں کو قبولیت کا درجہ دے چکا ہے۔ اس سے جان چھڑوانے کے لئے ہمیں بنیادوں کو ٹھیک کرنا پڑے گا اپنے معاشرے کی تعلیم و تربیت سے آغاز کرنا پڑے گا۔ عوام کے اندر اس ریاست اور اس کے اداروں کی ملکیت اور اہمیت کا احساس اجاگر کرنا پڑے گا۔ جمہوری نظام کے اندر بنیادی تبدیلیوں کو متعارف کروانا پڑے گا۔ جس سے اچھے کردار کے لوگ پارلیمان میں پہنچیں اور عوامی فلاحی طرز کااصلاحاتی جہاد کریں تو کوئی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے وگرنہ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ اور یہ عوامی فلاحی طرز کااصلاحاتی جہاد صرف اچھے کردار کے عوامی نمائندے ہی کرسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چوروں کا احتساب چوروں سے تو نہیں کروایا جاسکتا۔ پہلے احتساب کرنے والوں کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔ اور اصل احتساب کا اختیار عوام کے پاس ہے جس کا استعمال وہ ووٹ کے زریعے کرتے ہیں اور پھر اپنے ووٹ کی طاقت کا پارلیمان کے اندر مسلسل محاسبہ کرنا ہوتا ہےکہ اس کا استعمال صحیح ہورہا ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف عوام کے اندر اعلیٰ سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات سے ہی ممکن ہے۔ جس کی بنیاد عوامی نمائندے کے چناؤ کا میعار ہے۔ اور جب یہ معیار اچھا کردار ہوگا تو پھر یقیناً اس کے اچھے نتائج بھی نکلیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply