کیا قطر مشکلات سے نکل گیا ہے؟

کیا قطر مشکلات سے نکل گیا ہے؟
ثاقب اکبر

قطر پر چند دن پہلے (5 جون 2017ء کو) سعودی عرب اور اس کے ایماء پر چند ممالک نے جو پابندیاں عائد کی تھیں، ان کا فوری طور پر بہت شور بھی ہوا اور یہ سمجھا گیا کہ شاید قطر ان پابندیوں کی وجہ سے ناقابل برداشت مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ خاص طور پر اس پس منظر میں کہ اس کی زمینی سرحد صرف سعودی عرب سے ملتی ہے اور اس کی تجارت جس میں غذائی اجناس کی تجارت بھی شامل ہے، کا 90فیصد انحصار سعودی عرب پر تھا یا ہے۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ قطر کے خلاف سعودی عرب کے اقدامات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل ہے۔ تیز رفتاری سے کئی ایک ممالک نے سعودی عرب کی خواہش پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیئے، جن میں خاص طور پر مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ سعودی عرب اور اس کے ان قریبی اتحادیوں نے قطر سے فضائی اور بحری روابط بھی منقطع کر دیئے ہیں۔ اس کی وجہ قطر ایئر لائن کا پورا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ جب صدر ٹرمپ نے بعدازاں ثالثی کی پیشکش کی تو سعودی وزیر خارجہ نے اسے بھی قبول نہیں کیا۔ امیر کویت کی ثالثی کی کوششوں کے جواب میں سعودی عرب کی طرف سے کہا گیا کہ قطر 24 گھنٹے کے اندر اندر اس کے آٹھ مطالبات تسلیم کرے، ورنہ اس کے خلاف فوجی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ قطر کے جو فوجی یمن کے محاذ پر سعودی عرب کی افواج کے ساتھ مل کر یمن کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے تھے، انہیں بھی فوری طور پر الگ کرکے قطر واپس روانہ کر دیا گیا۔

جبکہ اس وقت یوں لگتا ہے کہ رفتہ رفتہ قطر نے دیگر کئی ممالک کے ساتھ مل کر اپنے معاملات کو کسی حد تک سنبھال لیا ہے۔ غذائی قلت کا مسئلہ جو سنگین ہوتا دکھائی دے رہا تھا، بہت حد تک حل ہوگیا ہے اور قطر کی مارکیٹیں ایک مرتبہ پھر سامان سے بھر گئی ہیں۔ سب سے پہلے ایران نے خوراک سے لدے ہوئے پانچ طیارے روانہ کئے، جن میں سے ہر طیارے میں نوے ٹن خوراک موجود تھی۔ اتنی ہی خوراک لے کر ایک اور طیارہ پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایرانی بندرگاہ سے ایک بحری جہاز 350 ٹن خوراک لے کر قطر کے لئے روانہ ہوگیا ہے۔ خوراک کے حوالے سے دیگر کئی ممالک نے بھی پیش رفت کی ہے، جن میں مراکش، اومان اور ترکی بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب کی طرف سے قطر کے خلاف لگائی گئی پابندیوں کو قطری عوام کے انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔ دریں اثنا اقوام متحدہ نے سعودی عرب کی طرف سے جن 60 قطری اداروں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا ہے، انہیں مسترد کر دیا ہے، کیونکہ ان میں سے بہت سے ادارے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر انسانی حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف خلیج تعاون کونسل کے متعدد ممالک نے قطر پر پابندیوں کے حوالے سے ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ سلطنت اومان اور کویت جو خلیج تعاون کونسل کے رکن ہیں، ثالثی کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے قطر پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اردن جس کا بہت زیادہ انحصار سعودی عرب کی مالی امداد پر ہے، نے بھی قطر سے کامل طور پر سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے بلکہ اسے ایک درجہ کم کرنے پر انحصار کیا ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام بڑے مسلمان ممالک نے ان پابندیوں میں سعودی عرب کا ساتھ نہیں دیا۔ ترکی کا ذکر کیا جائے تو اس نے فوری طور پر قطر کی حمایت میں اپنے فوجی دوحہ روانہ کئے ہیں۔

پاکستان نے بھی قطر سے تعلقات منقطع نہیں کئے اور ہمارے وزیراعظم نے شاہ سلمان سے ملاقات کرکے سعودی عرب کی داخلی سلامتی کے لئے اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ گویا سعودیہ سے باہر کے معاملات سے اپنے آپ کو باہر رکھا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے یمن کے مسئلے پر بھی غیر جانبدار رہنے کے لئے قرارداد منظور کی تھی اور قطر کے معاملے پر بھی حکومت پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا ہے اور غیر جانبدار رہنے کے لئے کہا ہے۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے بھی سعودی عرب کے اقدامات کی بالعموم یا مخالفت کی ہے یا تائید نہیں کی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے 10 جون 2017ء کو منصورہ میں جماعت کے عہدیداروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قطر اور سعودی عرب کے تنازع سے عالم اسلام کا نقشہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس سارے کھیل کا فائدہ دشمن اور نقصان عالم اسلام کو ہوگا، پاکستان اور ترکی مل کر اس تنازع کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ خوش ہے کہ ہر مسلمان ملک اس سے اسلحہ خرید کر اپنے مسلمان بھائی کو مارنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس گھناؤنے کھیل کے پیچھے یہودی دماغ ہے اور اس کا اصل مقصد اسرائیل کو محفوظ بنانا ہے۔ اگر ہم نے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ نہ کیا تو تباہی و بربادی سے بچنا مشکل ہوگا۔ سراج الحق نے کہا کہ اسلام دشمن قوتیں امریکی سرپرستی میں عالم اسلام کو تقسیم اور امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے گھناؤنا کھیل کھیل کھیل رہی ہیں اور امریکہ کے وارے نیارے ہیں، اس کا اسلحہ کا کاروبار خوب چمک رہا ہے، ہر مسلمان ملک اس سے اسلحہ خرید رہا ہے۔ امریکہ عالم اسلام کے وسائل، تیل، معدنیات اور سونے کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لئے مسلم ممالک کو تباہ کن جنگ کی آگ میں جھونک رہا ہے، پہلے وہ عراق کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کر چکا ہے، اب باقی مسلمان ممالک کو آپس میں الجھا کر ان کے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔

امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے اس بیان کے آئینے میں امریکہ عرب اسلامی کانفرنس کی حقیقت کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جن پچاس اسلامی ملکوں کے نمائندوں نے ریاض میں صدر ٹرمپ کا خطاب سنا تھا، ان کی دانشمندی کے بارے میں جناب سراج الحق کی رائے کیا ہوسکتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اب ان کے مشیر مشورہ دے رہے ہیں کہ قطر کے مسئلے پر مزید سخت رویہ اختیار نہ کیا جائے۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قطر پر اب تک جتنا دباؤ ڈالا جا چکا ہے، اگر اسے جاری رکھا گیا تو شاید قطر پوری طرح قابو میں آنے کے بجائے ہاتھ سے نکل جائے اور قطری قیادت یہ سمجھنے لگے کہ آئندہ اسے امریکہ اور علاقے میں اس کے حواریوں پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر قطری قیادت نے یہ فیصلہ کر لیا تو پھر سعودی عرب اور اس کے اتحادی یہی کہتے سنائی دیں گے:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
اس صورت حال کا اندازہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور جرجاش کے حالیہ بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جنہوں نے کہا ہے کہ ’’قطری بھائی‘‘ مسئلے کو خواہ مخواہ بین الاقوامی بنا رہے ہیں اور اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے کے لئے میڈیا کے ذریعے ڈھول پیٹ رہے ہیں، جبکہ ان کے مسئلے کا حل ریاض میں شاہ سلمان کے ہاتھ میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھائیوں کے درمیان مسئلہ ہے۔ متحدہ عرب امارات جو سعودیہ سے زیادہ غصے میں دکھائی دیتا تھا، کے انداز بیان میں تبدیلی کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنی گیس کی ضروریات قطر سے پوری کرتا ہے اور قطر نے گیس کی امارات کو ترسیل منقطع کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یورپی مبصرین کا بھی خیال ہے کہ قطر کے پاس اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہ موجودہ مسائل سے کامیابی سے باہر نکل آئے گا۔ پوری دنیا میں قطر کی انوسٹمنٹ بھی بے پناہ ہے، جو اس کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ قطر کے خلاف اقدامات کے پیچھے جو بھی سازش تھی اور اس کے جو بھی تانے بانے تھے، قطر اب پہلے والا نہیں رہا۔ قطر آئندہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر جن ممالک نے اس پر پابندیاں عائد کی ہیں، پر انحصار نہیں کرسکتا بلکہ جنہوں نے ان مشکلات میں اس کا ساتھ دیا ہے، یقینی طور پر قطر کی خارجہ پالیسی میں ان کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ قطر کی ضرور یہ مجبوری ہے کہ اس کی زمینی سرحد صرف سعودی عرب سے ملتی ہیں، لیکن زمینی سرحد کے ناقابل اعتبار ہو جانے کے بعد اسے متبادل راستوں ہی کو ترجیح دینا ہوگی۔ قطر کے خلاف موجودہ اقدامات اگرچہ آہستہ آہستہ کم یا ختم ہو جائیں گے، لیکن قطر کی حکومت اور عوام جس تجربے سے گزرے ہیں اور گزر رہے ہیں، وہ آئندہ انہیں نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔ قطر کی مارکیٹیں اب اور برانڈ کے مال سے بھری ہوئی ہیں۔ قطری گھروں میں اب کہیں اور سے آنے والی سبزیاں پکائی جا رہی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ دوست وہ ہے جو مصیبت میں کام آئے تو قطر میں اب کسی اور کو دوست سمجھا جائے گا۔ قطر کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ اس کی سرزمین پر امریکہ کا علاقے میں سب سے بڑا فضائی اڈا موجود ہے، اس کی اپنی فوج کی تعداد بہت مختصر ہے، قطر ایک چھوٹی سی ریاست ہے، جس کی کل آبادی 27 لاکھ کے قریب ہے، گویا مشکلات تو ہیں، تاہم رفتہ رفتہ تبدیلی کے عمل کی بنیاد پڑ گئی ہے، دیکھتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply