ہاتھی کے دانت ۔۔۔۔ !عاصم اللہ بخش

حقیقی زندگی کسی بھی داستانِ ہوشربا سے بڑھ کر دلچسپ و حیرت انگیز ہے۔ “جیمز بانڈ” کسی خیالی دنیا کا نمائندہ نہیں ۔ سازشی تھیوریاں محض تھیوریاں نہیں ہوتی، یہ وہ سوچے سمجھے منصوبے ہوتے ہیں جو ابھی تکمیل کو نہیں پہنچے۔ جب مکمل ہو چکیں تو یہ سفارتی لغت میں “حکمت عملی” کے نام سے جگہ پاتے ہیں۔ یہ سب وہ تاثرات ہیں جو گزشتہ ہفتہ عشرہ کے دوران عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے چند واقعات اور ان کے گرد اسرار کے دبیز سائے دیکھ کر ذہن میں آتے ہیں۔
14 مارچ ، بروز بدھ برطانوی وزیر اعظم نے دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی حکومت روسی “جارحیت” کے جواب میں فوری طور پر 23 روسی سفارتکاروں کو ناپسندیدہ قرار دے ملک بدری کے احکامات جاری کر رہی ہے۔ انہیں ایک ہفتہ کے اندر برطانیہ چھوڑنا ہو گا۔ اس پیشرفت کا پس منظر یہ ہے کہ 4 مارچ کو برطانوی شہر سالزبری میں ایک سابق روسی جاسوس سرگائی سکریپل اور ان کی جواں سال صاحبزادی یولیا سکریپل پر مبینہ طور پر اعصاب شکن کیمیکل سے قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ یہ واقعہ ایک عوامی مقام پر ہؤا اور اس کے نتیجہ میں آس پاس موجود دیگر عام شہری بھی شدید متاثر ہوئے۔
برطانیہ کا مؤقف ہے کہ ایک بیرونی طاقت کا اس طرح اس کی سرزمین پر “کیمائی حملہ” کھلم کھلا جارحیت کے مترادف ہے اور وہ اس پر چپ نہیں بیٹھ سکتا۔ برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے. اسی نوعیت کے 14 سے 16 واقعات اس سے قبل بھی ہو چکے ہیں جن میں مختلف طریقوں سے لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا ۔ ان میں ایک مشہور واقعہ 2006 کا ہے جب الیگزنڈر لیٹوینکو نامی ایک اور “سابق” روسی جاسوس پراسرار حالات میں مارا گیا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ اس وقت تک برطانیہ کے پاس روس کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرگائی سکریپل پر حملہ میں استعمال ہونے والا کیمیکل ، جسے A-234 کہا جا رہا ہے، دراصل کیمیائی ہتھیاروں کی اس قسم سے تعلق رکھتا ہے جو “نووو چوک” کے نام سے سوویت یونین نے 1970 اور 80 کی دہائی میں تیار کیے تھے۔ یہ کیمیکلز پوری دنیا میں صرف روس میں تیار کیے جاتے ہیں اور اس کی فیکٹری وسطی روس کے شہر “شیخَنی” میں واقع ہے۔ نووو چوک کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ دیگر میسر اعصاب شکن کیمیکلز بشمول Sarin اور VX سے پانچ سے آٹھ گنا زیادہ مہلک اور سریع الاثر ہے۔ چونکہ یہ کیمیکل صرف روس میں دستیاب ہے اور حملہ بھی روسی جاسوس پر ہؤا جو بھگوڑا ہو کر برطانیہ میں آباد ہے ، اس لیے یہ حملہ روس ہی نے کیا ہے۔ اس طرز عمل میں حیرانی کی بات نہیں کیونکہ یہ قریب ویسا ہی طریقہ کار ہے جو ماضی میں ہم افغانستان اور عراق وغیرہ کے حوالہ سے بھی سنتے آئے ہیں۔
دوسری جانب روس کا کہنا یہ ہے کہ وہ ایسے کسی حملہ میں براہ راست یا بلاواسطہ ملوث نہیں۔ جس کیمیکل کی بات ہورہی ہے اس کی تیاری 1993 میں ختم کی جا چکی ہے اور قریب چالیس ہزار ٹن پر مشتمل اس کے تمام اسٹاک کو ستمبر 2017 میں تلف کر دیا گیا۔ اس بات کی تصدیق کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمہ سے متعلق قائم عالمی تنظیم OPCW بھی کر چکی ہے۔ لیکن اس معاملہ کی ایک جہت اور بھی ہے۔ ڈاکٹر وِل مرزایانوف نامی جس سائینسدان نے نووو چوک پروگرام کا انکشاف کیا تھا وہ اب امریکہ میں رہتا ہے اور اس کے پاس ان کیمیکلز کا فارمولہ بھی موجود ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کے ایک عالمی ماہر ہیمش بریٹن گارڈن نے ایک دلچسپ بات کہی ہے۔ ان کے مطابق او پی سی ڈبلیو کو اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ روس کے شہر شیخَنی میں جا کر یہ تحقیقات کر سکے کہ وہاں اس مادہ کی تیاری یا سٹور کیے جانے کے آثار موجود ہیں یا نہیں۔ دوسرا، ان کا یہ کہنا ہے کہ ۔۔۔۔۔ روس کے علاوہ بھی چند ممالک یہ کیمیکل بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن میں سر فہرست خود برطانیہ ہے اور پھر امریکہ اور فرانس کا نمبر آتا ہے ۔ ڈاکٹر وِل مرزایانوف کی امریکہ میں موجودگی سے اس قسم کے شبہات کو تقویت مل سکتی ہے۔
یہاں ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے ، آخر اس کثیر تعداد میں سابق روسی جاسوس برطانیہ میں کیا کر رہے ہیں ؟ دراصل یہ امر اس تنازع کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے (دیگر بھی کم اہم نہیں، ان کا تذکرہ آگے) جو اس وقت برطانیہ اور روس کے مابین جاری ہے۔ روس ان ایجنٹس کو ڈبل ایجنٹ اور مافیا کے ارکان کہتا ہے۔ دوسری جانب برطانیہ ان تمام افراد کو خوشی خوشی اپنے ملک میں پناہ دیے ہوئے ہے۔ دراصل ان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد کثیر کالے دھن کے ساتھ برطانیہ میں آ کر آباد ہو گئے اور برطانیہ نے نہ صرف انہیں تحفظ دیا بلکہ ان کو کھل کر منی لانڈرنگ کے مواقع بھی فراہم کیے جس کے نتیجہ میں آج برطانیہ کی پراپرٹی مارکیٹ اور سرمایہ بازار کے استحکام کا بڑا انحصار برطانوی معیشت کی رگوں میں اس دھن کی موجودگی پر ہے۔ برطانیہ کو یہ خطرہ ہے کہ اگر یہ لوگ عدم تحٖفظ کا شکار ہو کر برطانیہ کو خیرباد کہہ دیتے ہیں یا اپنا پیسہ نکال لیتے ہیں تو برطانیہ کی معیشت کو اس کا شدید نقصان ہو گا۔ اس لیے برطانیہ ہر قیمت پر ان افراد کا تحفظ یقینی بنانا چاہتا ہے۔ اگر روس ایسا کر رہا ہے تب بھی، اور اگر نہیں کر رہا تو آئیندہ بھی ایسا نہ کر پائے، اس لیے بھی ۔
یہ کالا دھن اس کے لیے لائف لائن کا درجہ رکھتا ہے ۔ “بریگزٹ” کے بعد تو یہ سب اور بھی اہم ہو گیا ہے کیونکہ یورپی یونین کو الوداع کہنے کے بعد برطانوی معیشت بے یقینی کا شکار ہے اور کسی بڑے صدمے کے لیے تیار نہیں۔ یاد رہے کالے دھن کی حفاظت میں سرگرم یہ وہی برطانیہ ہے جو اب سے چند ہفتے قبل پاکستان کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے کوششوں کو ناکافی قرار دلوانے کے لیے امریکہ کی حمایت میں پیش پیش تھا۔
تاہم روس کے ساتھ کشاکش کی چند سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ جس طرح اسے “روس بمقابلہ یورپ میں اہم ترین امریکی اتحادی چپقلش” کا نام دے رہے ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ محض برطانیہ کا نہیں بلکہ یورپین اور ٹرانس اٹلانٹک سطح کا ہے۔ 15 مارچ کو برطانیہ، فرانس ، جرمنی اور امریکہ کا مشترکہ بیان جس میں روس کی مذمت کی گئی تھی اس بات کی جانب اشارہ ہے برطانیہ کو تنہا نہ سمجھا جائے۔ یورپین یونین سے الگ ہو جانے کے باوجود یورپ کی سطح پر بھی برطانیہ اکیلا نہیں اور سب بڑھ کر یہ کہ “نیٹو” اتحاد تو بہرحال موجود ہے ہی۔ کرائمیا اور یوکرین میں روسی پیشقدمی کو نہ روک پانے کے بعد اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیٹو نے یہ طے کر لیا ہے کہ شام میں روس پر مزید فعال رہنے سے باز رہنے، بلکہ پسپا ہو جانے کے لیے دباؤ بڑھایا جائے تاکہ شام کے مستقبل کا فیصلہ یورپ اور امریکہ کی مرضی کے تابع ہو۔ آج روس میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ صدر پوٹن کی عوام میں مقبولیت کی حالیہ ریٹنگ 80 فیصد ہے اس لیے متوقع یہی ہے کہ وہ بھاری اکثریت سے ایک بار پھر روس کے صدر منتخب ہو جائیں گے ۔ یہ ان کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ وہ فتح کی خوشی میں یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک سنگین بحران ان کا منتظر ہے۔
برطانیہ کی جانب سے روس پر عائد کیے جانے والے الزامات میں یہ بھی شامل ہے کہ روس “سائبر ” حملوں کو ریاستی پالیسی کے طور پر برطانیہ کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے ۔ مزید یہ کہ روس مغربی ممالک میں ہونے والے انتخابی عمل میں دخل اندازی کرتا ہے جس سے عالمی نظام اور اس کے استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ الزامات لگائے تو برطانیہ نے ہیں لیکن حقیقتاً یہ واشنگٹن کے دل کی آواز ہیں۔ صدر ٹرمپ کے متعلق یہ تحقیقات چل رہی ہیں کہ ان کی صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران روس کے ساتھ کہیں کچھ ایسا گٹھ جوڑ تو نہیں تھا جس نے خارجہ امور کی رازداری یا انتخابی عمل پر کسی درجہ اثر ڈالا ہو۔ برطانیہ کی مذکورہ بالا شکایت سے غالباً یہ تاثر دینا بھی مقصود ہے کہ یہ تو روس کا وتیرہ ہے اور ایسی کوئی بھی حرکت یکطرفہ کاروائی ہو سکتی ہے ، گٹھ جوڑ کا نتیجہ نہیں۔ یہ بات تسلیم کر لی جاتی ہے تو صدر ٹرمپ کی سیاسی صحت پر اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ خود برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے بھی اس موجودہ بحران کی براہ راست بینیفشری ہوں گی کیونکہ اب وہ ایک قوم پرست اور بہادر لیڈر کے رول میں خود کو نمایاں کر سکیں گی تاکہ اپنی حکومت کی ڈولتی کشتی کو سنبھالا جا سکے۔
دیکھ لیجیے سالزبری کے ایک پارک میں ہوئے واقعہ نے کس طرح دنیا کی عظینم طاقتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کتنے مقاصد، کتنے عزائم اور کتنے اہداف اس سے حاصل کیے جائیں گے ۔۔۔ کتنے ہی خاموش اور بلند آہنگ پیغامات دیے جا چکے۔ ورلڈ آرڈر کو لاحق خطرات کی نشاندہی ہو چکی۔ اور ہاں ۔۔۔ اگر آپ جاننا چاہیں کہ ان باپ بیٹی کا کیا بنا جن پر حملہ ہؤا ۔۔۔۔ وہ سخت بیمار ہیں لیکن زندہ ہیں۔ سارن اور وی ایکس سے آٹھ گنا طاقتور کیمیکل انہیں مارنے میں ناکام رہا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply