بھوکے ننگے اور زندہ لاشوں کے ووٹ ۔۔۔ محمد ارشد قریشی

جوں جوں ملک میں عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے، بہت سی تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آرہی ہیں۔ ایک جانب پنجاب کے سیاسی منظر نامے میں ہر روز کوئی تبدیلی رونما ہورہی ہے تو دوسری طرف کراچی کے سیاسی افق پر بھی کئی منظر تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔  سیاسی شعبدہ باز کہتے ہیں جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے، مگر میرے مشاہدے کے مطابق اس دور میں جنگ اور سیاست میں زیادہ تر  چیزیں ناجائز ہی ہیں۔ ماہِ جون کے اختتام پر پہنچتے ہی سیاسی میدان زیادہ ہی گرم ہوگیا۔ پنجاب میں زعیم قادری صاحب نے بالکل اسی انداز میں دھواں دھار پریس کانفرنس کی جس طرح کراچی میں مصطفٰی کمال صاحب کی ایم کیوایم کے خلاف پہلی پریس کانفرنس تھی۔ اگر ان دونوں پریس کانفرنسوں کو غور سے سنا جائے تو ان دونوں میں ہزارہا ایسے سوالات چھپے ہیں جن کے جواب شاید ہی کبھی مل پائیں۔ مصطفٰی کمال صاحب نے بھی اپنے عروج کے دور یا پھر اقتدار کے دور میں نہ کبھی ایم کیوایم کے خلاف کوئی بات کی نہ ہی بانی ایم کیو ایم کے خلاف بولے۔ عجیب اتفاق ہے ایک ٹی وی ٹاک شو میں مصطفٰی کمال صاحب نے زعیم قادری صاحب  کے ساتھ  بانی ایم کیو ایم پر تنقید  کرنے کے بعد  لفظوں کی وہ جنگ لڑی تھی جو شاید ہی کبھی بھلا ئی جاسکے۔

کراچی جو پاکستان کا معاشی حب اور ملک کا سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے، کی قسمت بھی عجیب رہی ہے۔ اس شہر کو اس کی معاشی اہمیت کی وجہ سے  جومقام ملنا چاہیئے تھا وہ نہ مل سکا۔ اس شہر میں احساسِ محرومی اس وقت سے پیدا ہونا شروع ہوگئی تھی جب اس کی پاکستان کے دارلخلافہ  کی حیثیت کو ختم کیا گیا۔ ماضی میں اس شہر پر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی گرفت انتہائی مضبوط رہی۔ کئی بار بھاری عوامی مینڈیٹ لے کر آنے والی جماعتوں نے اس شہر اور ان کے مسائل پر تو  خوب سیاست کی لیکن انہیں حل کرنے میں اتنی سنجیدگی نہیں دکھائی جتنا اس شہر کا حق تھا۔ اس شہر میں کئی  آپریشن کیے گئے  مگر ان میں زیادہ تر کے مقاصد سیاسی ہی نظر آئے۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ کئی سیاسی رہنماؤں نے سیاست چمکانے کی خاطر اس شہر کے باسیوں کو بھی نہ بخشا۔ کبھی یہاں رہنے والوں کو بھوکا ننگا بولا گیا تو کبھی زندہ لاشوں کا خطاب دیا گیا۔ لیکن جوں ہی الیکشن قریب آیا ان تمام لوگوں کے منہ سے اس شہر اور یہاں کے باسیوں کے لیئے پھول جھڑنے لگے جو کل تک اس شہر کے  بارے میں زہر اگلتے رہے۔ سیاسی  لوگوں کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پورا ملک ان کا حلقہ  انتخاب بن سکتا ہے۔ کسی ایک شہر یا شہریوں کو اگر حرف  تنقید بنائیں گے تو ممکن ہے وہی شہر کبھی ان کا حلقہ انتخاب بن جائے، جیسا کہ حالیہ انتخابات میں واضح نظر آرہا ہے۔ 

اس شہر کے حوالے سے ایک نہایت دکھ بھرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس شہر میں ہونے والے منفی واقعات کو تو سیاسی تقاریر اور پریس کانفرنسوں کا حصہ بنایا جاتا ہے تاہم شہر میں ہونے والے مثبت کاموں کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ یہ شہر جو ملک کا سب سے بڑا   فلاحی ڈونر بھی ہے یہاں نہ صرف فلاحی اداروں کے ذریعے لوگ  مستحقین کی مدد کرتے ہیں بلکہ انفرادی طور پر امداد کرنے والے لوگوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ اس شہر میں ہزاروں درسترخوان مستقل بنیادوں پر روز لگائے جاتے ہیں جہاں غریب غرباء اپنے پیٹ کی آگ بغیر کسی معاوضے کے بجھاتے ہیں۔ ماہِ رمضان میں اس شہر کی تمام ہی سڑکیں  دسترخوانوں میں تبدیل  ہوجاتی ہیں۔ گذشتہ ماہِ رمضان اس شہر میں  پیار محبت کے وہ وہ مناظر دیکھنے میں آئے ہیں کہ دل بھر آتا تھا۔ اس شہر کے نوجوانوں کی بڑی تعداد شام ڈھلتے ہیں فٹ پاتھوں، سڑکوں، پارکوں، ساحل اور مساجدوں میں  لوگوں کو افطار کرانے کی تیاریوں میں نظر آتے تھے۔ جگہ جگہ شہر کے شادی حالوں میں افطار اور تراویح کے انتظامات ہوتے تھے۔ ماہ صیام کے علاوہ بھی اس شہر میں بسنے والوں نے مستقل بنیادوں پر بہت سے فلاحی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھار ذہن میں آتا ہے کہ بھلا ہو ان فرشتہ صفت لوگوں اور فلاحی اداروں کا، یہ نہ ہوتے تو جانے اس شہر کا کیا ہوتا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

 یہ بات قطعی طور پر  درست نہیں کہ کسی ایک سیاسی جماعت یا رہنما سے اختلاف  کی وجہ سے اس کے تمام اہل زبان کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے “۔ ایسا کرنے سے نفرتیں بڑھتی ہیں، انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ اس شہر کے کئی علاقوں سے دہشت گرد پکڑے گئے مگر اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ شہر کے باقی تمام لوگ بھی  دہشت گرد ہیں۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شہر کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، اس شہر اور لوگوں کے لیے الفاظ و کلام میں احتیاط سے کام لیا جائے، اس شہر کی اہمیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے، اس شہر میں ہونے والی زیادتیوں پر ایک ہوکر آواز بلند کی جائے، اس شہر کے مسائل کے حل کے لیئے مثبت اقدامات کیئے جائیں  اور پھر اس شہر کے باسیوں سے ووٹ مانگا جائے۔ 

Facebook Comments

ارشد قریشی
محمد ارشد قریشی کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری کا شغف بھی رکھتے اور میم الف ارشیؔ کے تخلص کے ساتھ اشعار کہتے ہیں ،ہم سماج ڈیجیٹل میڈیا گروپ کے سربراہ اور پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کےنائب صدر ہونے کے ساتھ انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز آرگنائیزیشن پاکستان کےصدر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایک اچھا سچا اور مخلص صحافی دنیا کو پرامن اور خوبصورت بنا سکتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply