ہمزاد۔ احمد زوہان

مسلسل سفر کی اذیت سے تنگ آ کر سڑک کے کنارے واقع سرائے نما کمرے میں ہم دونوں رات رک گئے۔سرائے پر حقِ ملکیت جتانے والا ایک بوڑھا فقیر تھا جو مٹھی گرم ہوتے ہی کہیں چھو منتر ہو چکا تھا۔خدا اس کا بھلا کرے  کہ اس نے کہیں سے بان کی کھاٹ لا کر رکھی ہوئی تھی جس سے رات بسر کرنے میں کچھ آسانی کا امکان دکھائی دیا، مگر یہ رات اس قدر طویل ہو گی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
میں مسلسل کئی سالوں سے اس سرائے کے باہر لکڑی کے ایک بینچ پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہوں کہ شاید کسی وقت وہ نیند کی آغوش سے سر اٹھا کر اپنی آنکھیں مسلتی ہوئی دروازے سے نکلے،میری طرف دیکھے اور فاتحانہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے لڑکھڑاتے قدموں سے چلتی ہوئی بینچ پر آ بیٹھے اور ایک لمبی انگڑائی لیتے ہوئے پوچھے۔
“تم کب سے یہاں بیٹھے ہو؟”
میں اسے کیا جواب دوں کہ وہ جس نیند سے جاگی ہے اس کی آغوش میں کتنا وقت گزارا؟۔ میں اسے بتا رہا تھا کہ جب میں نے اس فقیر سے ہم دونوں کے یہاں رات رہنے کی بات کی تو وہ آنکھیں پھاڑ کر میرے عقب میں دیکھنے کی کوشش کرتا رہا اور پھر عجیب نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنی جیب سے مڑے تڑے دو نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔”سن رہی ہو  ناں”؟ ۔ مگر جواب میں محض خاموشی تھی۔
وہ سو گئی تھی  اور اس بوسیدہ کمرے کی بدبودار فضا میں میرا دم پہلے ہی گھٹ رہا تھا۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بان کی سخت چارپائی پر لیٹے لیٹے پسلیاں درد سے احتجاجی صدائیں بلند کر رہی تھیں اور اس پر اب اس کی سانسوں کی دھونکنی جس رفتار سے چل پڑی تھی کمرے کا خوفناک ماحول مزید وحشت زدہ ہو گیا۔ میں صبح کے انتظار میں کروٹیں بدلنے لگا مگر یہ رات! ۔
صبح کے انتظار میں جاگ جاگ کر آنکھیں شاید سرخ ہو چکی تھیں۔کئی بار جیب ٹٹول کر دوائیوں کی پرچیوں میں سے ابا کی پرانی راڈو گھڑی(جس کے پٹے میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ٹوٹ چکے تھے)نکال کر وقت دیکھنے کی ناکام کوشش کی مگر کمبخت اندھیرا ایسا کہ ہاتھ پر ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ گھڑی کی ٹک ٹک کہیں اس کی سانسوں کے شور میں دب گئی۔بہت دیر بعد کہیں جا کر اس کے شانے سے سر لگا کے سونے پر ابھی دل آمادہ ہوا ہی تھا کہ اس کے خراٹوں نے اس ماحول کو خوبصورت بنانے کی رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔پہلے شرارت سوجھی کہ ناک پکڑ کر کچھ دیر دبائے رکھوں تو شاید ان خراٹوں سے خلاصی ممکن ہو مگر پھر دن بھر کی تھکاوٹ کا احساس ہوتے ہی اپنا ہاتھ واپس کھینچا اور آنکھیں پھاڑ کر چھت کو گھورنے کی ناکام کوشش کرنے میں مصروف ہو گیا۔کمرے کا ہر کونا کھدرا آنکھوں ہی آنکھوں میں چھان مارا مگر کہیں سے روشنی کا کوئی سراغ نہ ملا۔آسمان کو شاید چاند تاروں کی حالتِ زار پر رحم آ گیا اس لیے آج انہیں رخصت دے رکھی ہو گی وگرنہ کھلے ہوئے دروازے سے باہر کچھ تو دکھائی دیتا۔قریب ہی کسی گاؤں سے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دے رہی تھی،مجھے یاد ہے بچپن میں ہم دادی سے سنتے تھے کہ جب بھی کوئی بھونچال،آفت،بلا یا کوئی فرشتہ کسی علاقے میں آنا ہوتا ہے تو کتوں کو سب سے پہلے معلوم ہو جاتا ہے اور وہ بھونکنا شروع کر دیتے ہیں۔شاید ایسا ہی کوئی معاملہ ہو مگر اب کمرے کی وحشت میرے لیے ناقابل برداشت ہو چکی تھی سینے پر بوجھ سا محسوس ہونے لگا اور سانس لینے میں بھی دقت محسوس ہو رہی تھی۔میں نے جبراً مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اپنا لاغر وجود سمیٹ کر کمرے سے باہر گھسیٹ لایا۔
بیس فٹ کی دوری پر موجود اس بینچ تک پہنچتے پہنچتے مجھے اس کی افادیت کا احساس شدت سے ہوا۔لڑکھڑاتا ہوا جسم بیس قدم بھی سہارے کے بغیر نہیں چل سکا اور بینچ پر آ کر ڈھیر ہو گیا۔تازہ ہوا کا ایک جھونکا  چہرے سے ٹکرایا تو سانسیں کچھ بحال ہوئیں اور بدن ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا۔بے چینی اور اضطراب کی جو کیفیت کچھ دیر پہلے تک تھی وہ کافور ہوئی تو سوچ کے بے لگام گھوڑے نے سرپٹ دوڑ لگا دی۔”صبح ہوتے ہی ہم دونوں یہاں سے واپسی کا سفر باندھیں گے مجھے معلوم ہے وہ اپنی ضد منوانے کی سرتوڑ کوشش کرے گی مگر میں نے بھی سوچ لیا ہے اس بار میں اس کی ایک نہیں سننے والا”۔
انہی سوچوں میں گم لکڑی کے بے جان بینچ پر لیٹے لیٹے نہ جانے کتنا وقت گزر گیا ایسے لگ رہا تھا شاید کئی دن، مہینے یا پھر کئی سال بس اتنا معلوم ہے کہ ابھی اس کے اٹھنے سے قبل چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور میں نے یہ تمام وقت جاگ کر گزارا ہے۔اور اب وہ جاگ جائے تو قریب آئے ،  میری پچکی ہوئی گالوں میں پیوست ٹھوڑی کو اپنی مخروطی انگلیوں سے تھامے اور چہرے کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے خفگی سے دیکھتے ہوئے بولے۔”تم پاگل ہو؟” اور میں مسکراتے ہوئے اسے سینے سے لگا کر کہوں،
“ہاں میں تمہارے لیے پاگل ہوں” مگر ! آہ!

Advertisements
julia rana solicitors

فرشتے آ کر چلے گئے!
کتوں کے بھونکنے کی آوازیں معدوم ہو چکی ہیں۔
لکڑی کے بینچ پر پھیلا ہوا وجود ہوا اڑا کر لے گئی ہے ۔
زندگی کئی سالوں سے سڑک کے کنارے واقع سرائے کے اس بدبودار کمرے میں بان کی چارپائی پر گہری نیند سو رہی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply