سرخ مسیحا۔۔۔مریم مجید ڈار

گاؤں والوں نے آج پھر ایک اور باسی کی لاش جنگل کو جانے والے راستے سے اٹھائی تھی اور رات کی سیاہ خاموشی میں اب وہ اسے دفنانے آئے تھے۔
ہاتھوں میں مشعلیں تھامے وہ اس لکڑی کے تختے کے قریب کھڑے تھے جس پر لاش کو باندھا گیا تھا۔مرنے والا گاؤں کا ایک نوجوان شخص تھا ۔اس کے جسم پر جو لباس تھا وہ جگہ جگہ سے سیاہ اور کہیں کہیں سے سرخ تھا۔ سیاہی کوئلے کی تھی اور سرخی لہو کی رہین منت تھی۔ مر جانے والے کے چہرے کی رنگت میں جانے کیسی وحشت تھی کہ آس پاس کھڑے لوگ ایک انجان سنسناہٹ کے احساس کے ساتھ قدرے قریب قریب ہو گئے۔ ۔

“دفن کرنے کا وقت آ گیا ہے” بالاخر ایک بوڑھے نے کھنکھار کر کہا اور کچھ لوگ تختے پر بندھی لاش اٹھا کر جنگل کی جانب بڑھ گئے۔
کچھ ہی دیر میں پیچھے رہ جانے والے بھی اپنے اپنے جھونپڑوں کو لوٹ گئے۔ تبھی آسمان سے ایک تارہ ٹوٹا اور اس کا کچھ حصہ عین اس جگہ آن گرا جہاں تختے پر بندھی لاش رکھی گئی تھی
پھر سیاہ آسمان نے دیکھا کہ زمین میں کچھ ہلچل سی ہوئی ۔ مٹی ہل رہی تھی اور پھر یکدم ایک ننھے پودے کا جنم ہوا جو حیرت انگیز طور پر سفید تھا۔ اور اسکی شکل انسانی ہاتھ کی بند مٹھی جیسی تھی۔
لوگ جنازہ دفنا کرکے  واپس آ گئے،کسی نے اس مافوق الفطرت پودے کو نہیں دیکھا ۔ آسمان نے دیکھا اور خاموشی سے مسکرا دیا۔

دن گزرتے رہے، اس سیاہ بھوت نے ، جو گاؤں  سے باہر اپنے شیشے کے محل میں رہتا تھا، گاؤں والوں کا شکار جاری رکھا ۔ اس کے کارندے جب چاہتے، جس جھونپڑی سے چاہتے نوجوان، گرم لہو اور مضبوط بدن اچھی قد کاٹھی کے مرد اور عورتوں کو چھانٹ لیتے، ان کے ہاتھ ان کی پشت پر باندھ دئیے جاتے اور گردنوں میں ایک رسی ڈال کر انہیں کانچ کے محل میں لے جاتے ۔ ان مظلوموں کے اہل خانہ روتے تڑپتے اور گندم کے ان دانوں، شراب کے مقررہ چوبی برتنوں اور مخصوص سیاہ لباس کو سنبھالتے جو انسانوں کے عوض ان کو دیا جاتا اور کچھ دن رو پیٹ کر پھر سے زندگی جینے لگتے تاوقتیکہ اس کی چوسی ہوئی پھوک بنی لاش گاؤں کے باہر والی پگڈنڈی پر دھڑام سے آن گرتی۔ بھوت کی  ذمہ داری اسے دفن کرنے کی نہیں تھی۔

مافوق الفطرت سفید پودا جس کی شکل انسانی ہاتھ کی بند مٹھی جیسی تھی، وہ دیہاتیوں اور بھوت کے کارندوں کی نظروں سے محفوظ، چپکے چپکے بڑھتا رہا۔ دن میں سر نہیوڑائے ، پھونس اور سوکھی پتیوں کے بیچ چھپا رہتا۔ رات ہوتی تو سر اٹھاتا۔ آسمان سے رازو نیاز کرتا۔ ستارے اس کو روشنی کی غذا بھیجتے اور چاند سے گرنے والی شبنم اس کی رگوں میں توانائی کی نمی بن کر دوڑنے لگتی۔
“آخر کب”؟؟؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا؟؟ انسان کم ہوتے جا رہے ہیں اور بھوت کی طاقت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔؟؟” ایک رات آسمان نے اس سے پوچھا۔

“میں ابھی کمزور ہوں!! اذن گفتار پانے کے لیے مجھے مزید قربانیاں چاہیئں!! مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب انسان اس کانچ کے قلعے میں نوچنے کے لیے  لیجائے  جاتے ہیں!! میرا دل پیچھے رہ جانے والوں کے اندوہ ناک ماتموں سے کڑھتا ہے مگر !! یہ ان کے ماتموں سے جو دبی دبی بغاوت جنم لے رہی ہے وہی میری بے زبانی کو زبان دے گی۔۔۔بس کچھ وقت اور ۔” پودے نے آسمان سے گفتگو تمام کی۔ آسمان مسکرایا اور ستاروں نے دعائیں بھیجیں۔۔۔

شب و روز اسی ڈھنگ سے بیتتے رہے، نوجوان کم ہوتے رہے، بستی میں اب زیادہ تعداد بوڑھوں، بچوں اور بیکار عورتوں کی تھی ۔ بھوت کے ہرکاروں نے اب انسانوں کے عوض دی جانے والی گندم، شراب اور کپڑے میں بھی نمایاں کمی کر دی تھی۔ اب وہ ایک مرد اور ایک عورت کے بدلے میں ایک بوری گندم، ایک چھوٹا مٹکا شراب اور کپڑا دیا کرتے تھے۔ کوئی آج تک کانچ کے محل کی حقیقت سے واقف نہ ہو سکا تھا کہ وہاں لے جائے جانے والے زندہ واپس نہیں آتے تھے۔

جنگل کے پاس والا قبرستان اب بری طرح سے بھر چکا تھا اور جس رات وہاں آخری ممکن قبر کا اضافہ ہوا، اسی رات اس عجیب پودے کو زبان نصیب ہو گئی۔ جونہی اس نوجوان کی بیوہ اپنے کچھ ہفتوں کے بچے کو سینے سے لگائے بستی کو آنے والی پگڈنڈی پر آئی، اس کے حلق سے ایک دلدوز آہ اور کراہ بلند ہوئی اور پودے کے رگ و ریشے میں وہ اضطراب پیدا ہو گیا جس کا اسے جانے کتنے برسوں سے انتظار تھا۔ وہ اب مکمل طور پر جوان ہو چکا تھا اور بند مٹھی جو پہلے کسی ننھے بچے کے ہاتھ کی مانند دکھائی دیتی تھی اب ان نوجوان مرگ زدوں کے کھردرے ، سخت اور مضبوط ہاتھوں کا روپ دھار چکی تھی۔

آج اسے آخری بار آسمان سے گفتگو کرنا تھی۔ “تو وقت آ گیا؟” آسمان نے پوچھا۔۔ وہ خوشی سے جھوما اور کہنے لگا” ہاں!! وقت آ گیا ہے! اب میری زبان انسانوں کو بھوت کی قید سے نجات دلا دے گی۔ وہ میری بات سنیں گے اور پھر کانچ کے محل میں چھپے بھوت کے چھیتھڑے اڑا کر رکھ دیں گے جو ان کی انگلیوں، بازووں، پٹھوں اور پیٹھوں کی طاقت نچوڑ کر انہیں پھوگ میں بدلتا ہے اور محل کی فصیلیں مزید اونچی ہوتی جاتی ہیں۔ اب سے بستی کے لوگ شراب ،گندم اور کپڑے کے عوض بھوت کے کارخانہ کا ایندھننہیں بنیں گے۔ ” آسمان مسکرایا، تاروں نے دعائیں بھیجیں اور چاند کا دل جانے کیوں سکڑ سا گیا۔”کیا سچ مچ انسان بھوت کو ہرا پائیں گے؟؟” اس نے قریبی تارے سے سرگوشی کی اور کوئی جواب نہ پا کر بادلوں میں منہ چھپا لیا۔ پودے کا جوش و جذبہ انتہا پہ تھا اور اسے شدت سے صبح ہونے کا انتظار تھا ۔
رات بیتی اور سورج نے اس سیاہ نصیب بستی پر اپنی کرنوں کی کرم نوازی کی تو بستی کے لوگ بھی دھیرے دھیرے بیدار ہونے لگے۔

سب سے پہلے اسے دیکھنے والا وہ نوجوان تھا جس کے بھائی کو دو دن پہلے ہی کانچ کے محل میں لے جایا گیا تھا ۔ وہ اسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا چند لمحے گھورتا رہا پھر اس کی عجیب ہئیت سے گھبرا کر واپس بھاگنے لگا مگر پودے نے اسے آواز دی ” سنو!! بھاگ کر نہ جاو!! مجھے تمہارے لئیے گویائی ملی ہے، میری بات سنو”!! اسے بولتے ہوئے دیکھا تو نوجوان کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو گیا۔ وہ وحشت سے سرپٹ بھاگتا ، گرتا پڑتا بستی کی جانب بڑھتا رہا۔
پودا مایوسی سے اس چھوٹے سے گرد کے بادل کو دیکھتا رہا جو نوجوان کے تیز رفتار قدموں سے بنا تھا۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس نے اسی نوجوان کو بستی کے کچھ لوگوں کے ساتھ آتے دیکھا۔ وہ متجسس، حیران اور خوفزدہ تھے اور ان کے ہاتھوں میں بیلچے، ہتھوڑیاں اور درانتیاں تھیں۔

“یہ رہا!” نوجوان نے اسکی جانب اشارہ کیا” اس نے مجھ سے بات کی تھی”۔۔
پودے کو اممید کی ایک کرن نظر آئی۔ اس نے اپنا بند مٹھی جیسا سر ہلایا اور بولنے کا آغاز کیا” سنو اے بستی والو!!! میں تمہیں کانچ کے محل کے سیاہ بھوت سے نجات دینے کا طریقہ بتاوں گا! میرا جنم ہی فقط اس لئیے ہوا تھا ۔ تم میری بات سنو اور اس پر عمل کرو” یہ سننا تھا کہ لوگ جن کے دل میں بھوت کی غلامی اور اپنی بے بسی سے نفرت کی آگ بھڑکتی رہتی تھی اس کے قریب آ گئے ۔ وہ سب نجات چاہتے تھے۔ ایک نوجوان اٹھا اور بستی کے سبھی لوگوں کو بلا لایا۔ اب تمام لوگ جمگھٹا بنائے اسے سن رہے تھے اور وہ مسلسل بول رہا تھا۔ اتنے برس بعد اسے گویائی ملی تھی ۔
” بستی والو!! وہ ظالم بھوت جس نے تمہارے قبرستان میں ایک بھی مزید قبر کی گنجائش نہیں رکھی وہ جو محض گندم شراب اور کپڑے کے عوض تمہارے ہاتھ پیروں اور شانوں کی طاقت نچوڑ لیتا ہے، اس کے ظلم وحشت اور بربریت کو سبوتاژ کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے!

یاد رکھو اس کا محل کانچ کا ہے اور تمہارے پاس لوہے کے اوزار ہیں!! اعلان بغاوت کرو اور ہر چوس کر پھینک دئیے گئے انسان کا بدلہ لینے کا عہد کرو!
“مگر ہم کمزور ہیں اور وہ طاقتور، اور اگر ہم نے اس سے جنگ کرنا چاہی تو ہم بھوک سے مر جائیں گے! “ایک پست حوصلہ نوجوان منمنایا۔
پودے نے سر گھما کر اسے دیکھا” نہیں! تم کمزور نہیں ہو! اگر تمہارے ہتھیار زمین کا سینہ شق کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اگر تم ٹھوس کو مائع کر سکتے ہو، اگر تم پتھریلی سیاہ چٹانوں سے ایندھن کھوج نکالتے ہو تو یاد رکھو تم کمزور نہیں !! اپنی طاقت پہچان لو! ”
پودے کی گرمجوش اور اکسانے والی گفتگو سے نوجوانوں کے دلوں میں دبی ہوئی محرومیوں کی آگ بھڑکتے ہوئے الاو میں ڈھلنے لگی۔ وہ تمام دن انہوں نے اس کے قریب اپنے ولولے تازہ کرتے ہوئے گزارا۔
آنے والے دنوں میں ان سب نے اپنا لائحہ عمل طے کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اس رہنما پودے کے گرد اکھٹے ہو جاتے اور اپنی ہمتوں کو متجمع کرتے۔پودا، جس کو انہوں نے مسیحا کا لقب دیا تھا اپنی ہر ممکن کوشش سے بستی والوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو چکا تھا کہ بھوت محض اس لئیے طاقتور ہے کہ انسانوں کو اپنی طاقت کا ادراک نہیں تھا اور اسے شکست دینا ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔

اس دوران بھوت کے ہرکارے بستی میں شکار کے لئیے آئے تو یہ وہ پہلا موقع تھا جب انسانوں نے شراب کے برتن ان کے سروں پر برسائے، گندم کو ٹھوکروں سے اڑایا اور سیاہ کپڑے کو آگ دکھا دی۔
اور اتنے برسوں میں یہ پہلی بار تھا کہ ہرکارے انسانوں کو وصول کئیے بغیر لوٹ گئے تھے۔
اس پہلی کامیابی نے بستی کے لوگوں کے دل جوش و امنگ سے بھر دئیے تھے اور انہیں یقین ہ چلا تھا کہ فتح بالاخر ان کی ہی ہو گی وہ اپنی حق تلفیوں کا ازالہ کرنے کی راہ پہ نکل پڑے تھے۔ مگر وہ جانتے نہ تھے کہ کسی بھی انقلاب کو تازہ گرم سرخ لہو کے چھینٹوں کے بغیر کامیاب کرا لینا بہت مشکل ہوتا ہے۔

کچھ دن خاموشی سے گزرے اور پھر ایک رات جب ساری بستی خاموشی کی چادر اوڑھے سو رہی تھی، بھوت کے نمائندے چپ چاپ بستی میں داخل ہوئے اور سوئے ہوئے لوگوں کو گھروں سے گھسیٹ گھسیٹ کر رسیوں سے باندھنے اور جبری قیدی بنا کر لے جانے لگے” گندم، شراب اور کپڑا ٹھکرانے کی سزا بھگتو!!! ” وہ غرا رہے تھے اور انسانوں کو رسیوں سے کھینچتے ہوئے لے جا رہے تھے ۔ ان کے گھسٹتے بدنوں سے رستے ہوئے لہو نے پگڈنڈیوں پر سرخ لکیریں کھینچ دی تھیں۔
بستی والوں کا غم و غصہ اب عروج پر پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے اپنی سپاہ تیار کی اور بھوت کے محل کی جانب چل پڑے ۔ ان کے ہاتھوں میں اپنے مسیحا کی علامت کے طورپر سفید پرچم تھے اور وہ اپنے سارے ہتھوڑوں، بیلچوں، آریوں اور درانتیوں سے لیس ہو کر اپنے لوگ چھڑانے چل پڑے تھے۔ پودا دعا گو تھا۔ متفکر اور پرجوش تھا۔

آج کسی کے قدم ڈگمگا نہیں رہے تھے، آج کی صبح کسی کے دل میں خوف کی رمق نہیں تھی۔ ان کے سفید پرچم ہوا میں فتح کے پھریرے بن کر لہرا رہے تھے اور ان کے ہتھیار ماہ کامل کی طرح چمک رہے تھے۔
جلد ہی وہ پرشکوہ، ہیبت ناک شیشے کے محل کے سامنے جمع ہو گئے۔
“ہمارے لوگ رہا کرو”!! ہمارے ساتھیوں کو آزاد کرو، ہم تمہارا ستم برداشت کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم اپنی توانائی سے ظلم کی قوت میں اضافہ نہیں ہونے دیں گے”! ایک پرعزم نوجوان چلایا اور اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہتھوڑی پوری قوت سے محل پر دے ماری۔
ایک زوردار چھناکہ ہوا اور کانچ کا ایک بڑا ٹکڑا زمین پر آن گرا۔
مجمعے نے خوشی سے بے قابو ہو کر نعرے لگانے شروع کر دئیے ۔وہ اب محل کے اندر داخل ہونے کے ارادے سے آگے بڑھنے لگے۔تبھی اونچی فصیلوں سے گرم اور تیز رفتار، بارود کی بو سے اٹا ہوا پہلا تیر چلا اور سفید پرچم تھامے ایک نوجوان کے حلق میں ترازو ہو گیا۔ اس کے لہو کی تیز دھار نے پرچم پر سرخ چھینٹے تخلیق کئیے اور ادھر بستی میں مسیحا پودے کے بدن پہ سرخی کا پہلا دھبہ نمودار ہوا۔ “اوہ خدایا!! “وہ کراہا”مجھے معلوم تھا، مگر اس کے بغیر یہ ممکن بھی نہ ہوتا۔” اس نے اپنی جڑوں کو مزید مظبوطی سے زمین میں گڑتا ہوا محسوس کیا۔

دوسری طرف اب مجمع پہلی ہلاکت سے مزید پرجوش ہو گیا تھا۔ وہ جان کی بازی لگا کر لڑ رہے تھے۔ بہت سے نوجوان مر گئے تھے، کئی زخمی تھے مگر وہ ہار ماننے کو تیار نظر نہیں آتے تھے ۔سفید جھنڈے لہو لہو تھے ، ہاتھوں بالوں اور آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا اور ہتھیار لہو سے چپچپا رہے تھے مگر وہ ہار ماننے پر آمادہ نہیں تھے۔ کانچ کے محل میں اب اتنے شگاف پڑ چکے تھے کہ باآسانئ اندر داخل ہوا جا سکے۔
قوت بازو کے معجزے نے انہیں دیومالائی طاقت عطا کر دی تھی۔وہ لڑ رہے تھے، مر رہے تھے، مار رہے تھے مگر پسپائی کا خیال تک نہ آتا تھا۔
پھریروں سے لہو نچڑ رہا تھا اور پودا سرخ ہوتا چلا جا رہا تھا۔
آہستہ آہستہ لڑنے والوں کی تعداد میں کمی آتی گئی۔ اب صرف ایک نوجوان تھا جس کے ہاتھ میں ہتھوڑی تھی۔وہ بھی زخمی تھا مگر حوصلہ بے حد تازہ دم تھا۔ اس نے اپنے بدن کی ساری قوت اپنے ہاتھ میں منتقل کی اور ایک بھرپور وار سے تباہ حال محل پر فیصلہ کن ضرب لگائی اور دہشتناک گڑگڑاہٹ کے ساتھ سیاہ دھوئیں کا مہیب بادل فضا میں پھیل گیا۔
نوجوان بے دم ہو کر زمین پر گر گیا۔

کچھ دیر بعد جب دھواں چھٹا تو اس نے دیکھا کہ محل زمین بوس ہو چکا ہے۔ جگہ جگہ بھوت کے کارندے سڑاند زدہ جسموں کے انبار کی صورت پڑے ہیں۔ مشینیں جن سے انسانوں کی قوت نچوڑی جاتی تھی، وہ ٹوٹی پھوٹی ہوئی تھیں اور زنجیروں میں جکڑے قیدی کھلی فضا کی جانب لپک رہے تھے۔
فتح نصیب ہو گئی تھی، انہوں نے رہتی دنیا کے انسانوں کے دلوں سے بھوت کا خوف مٹا ڈالا تھا۔ محنت کش آزاد ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنی قوت کو پہچان لیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب آخری قیدی بھی رہاہو چکا تو نوجوان نے شکرگزاری کے گہرے احساس کے ساتھ اسے لہو میں بھیگا پرچم تھمایا، آنکھوں ہی آنکھوں میں آئندہ آنے والےمحنت کشوں، مزدور انسانوں کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ لیا اور سکون سے آنکھیں بند کر لیں۔
پودے کا آخری حصہ بھی سرخ ہوا ۔ پرچم تھامے قیدی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ بستی کو لوٹ رہا تھا۔ ۔وہ دن جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجانے والا تھا، جو ظلم کے خلاف جیت کا پہلا قدم تھا اور جس نے سرخ پرچم کو زور بازو پہ بھروسہ کرنے والے محنت کش مزدور کا نشان عظمت بنا دیا تھا۔
وہ دن “یکم مئی” تھا۔!!

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply