تامل ٹائیگرز کے دیس میں (تیسراحصہ)۔۔خالد ولید سیفی

کامران سے گفتگو کا دور چل رہا تھا، اس کی کوشش تھی کہ ہم انڈیا سے درآمد شدہ اس کی ڈربہ نما کار کو کولمبو سمیت سری لنکا کے دیگر سیاحتی مقام پر جانے کے لیے بک کریں، مگر زیادہ کرایہ بتانے پر ہم نے ان سے فون نمبر لے کر بعد میں خود رابطہ کرنے کی یقین دہانی پر اس موضوع سے جان چھڑائی اور دیگر موضوعات پر ہلکی پھلکی گپ شپ ہوتی رہی، جس میں کبھی کبھار مزاح کا تڑکا بھی لگتا تھا، جس کے بعد کوئی قہقہہ نما چیز کار کے شیشوں سے باہر نکل کر خاموش فضا سے کھیلتی تھی۔

سڑک کے دونوں طرف ہریالی تھی، کامران نے بتایا بارشیں بہت ہوتی ہیں، اسی لیے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے۔

آدھا گھنٹہ یا اس سے زائد کچھ وقت گزرا، کولمبو کی شہری حدود شروع ہو چکی تھی، کولمبو نمبروں میں تقسیم ہے، جس طرح کوئٹہ سڑکوں میں تقسیم ہے، کولمبو 1، کولمبو 2، کولمبو 15 تک۔

سامنے لگ بھگ 8 لاکھ کی آبادی پر مشتمل روشن کولمبو بانہیں پھیلائے اپنے غیرملکی مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھا۔ رات کے ساڑھے نو بجے تھے، کولمبو ابھی جاگ رہا تھا، پوری طرح جاگ رہا تھا، دنیا کے اکثر شہر رات بھر جاگتے ہیں یا رات کو بہت دیر تک جاگتے ہیں، لیکن کولمبو ان میں سے نہیں ہے، کولمبو جلدی سو جانے والا شہر ہے۔

ہماری منزل “کولمبو سٹی ہوٹل” تھا، جو کولمبو 2 میں واقع ہے، جہاں ہم اپنے تئیں آن لائن بکنگ کر چکے تھے۔ شہری حدود میں داخل ہوئے، ہر بڑے شہر کی طرح سڑکوں پر رش تھا، کارواں کے ساتھ ساتھ بائیک کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی مگر کوئی ہیلمٹ کے بغیر نہ تھا۔ چھوٹا ہو یا بڑا، بوڑھا ہو یا جوان، مرد ہو کہ خاتون، قانون سب کے لیے تھا۔ سری لنکا میں بغیر ہیلمٹ بائیک سواری پر پچیس ہزار جرمانہ ہے، جس طرح ہمارے ہاں بغیر ہیلمٹ 200 سے 500 تک کی رشوت ہے۔
مملکتِ اسلامی جمہوریہ پاکستان!!

ٹیکسی کولمبو کی سڑکوں پر چلتی رہی، مختلف سگنلز کراس کیے، ایک چوک پر ایفل ٹاور کا ماڈل بنا ہوا تھا جو برقی قمقموں سے روشن تھا، ہم مناظر میں کھوئے ہوئے تھے۔

شہری مناظر کیا ہوتے ہیں، میٹریل کے پہاڑ، جنھیں عمارت کہا جاتا ہے، شہر میں نیچرل کچھ نہیں ہوتا، شہر نیچرل خوبصورتی کے قاتل ہوا کرتے ہیں۔ ہر شہر کے سینے میں قدرتی خوبصورتیاں دفن ہیں اور آرٹیفیشل حسن داد طلب کرتا رہتا ہے۔۔۔ اور ہم چار و ناچار داد دیتے رہتے ہیں۔

کامران کی گفتگو بھی اب ہلکے پھلکے مراحل سے نکل کر 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جاری تھی۔ گفتگو میں معلوماتی فائدے کم اور بڑبڑ زیادہ تھی۔ بڑبڑ حضر میں قابلِ برداشت نہیں ہوتی، سفر میں تو جان پر آ جاتی ہے۔ ہاشم کبھی کبھار مروتا”، “ہاں ہوں” کر کے یہ تاثر دیتا تھا کہ میں متوجہ ہوں تاکہ کامران کی حوصلہ افزائی رہے، مگر ہم، “زمین جنبد نہ جنبد گل محمد” تھے، کیونکہ کامران کی گفتگو اگر فرعون سے متعلق بھی شروع ہوتی تو اس کی تان اپنی ٹیکسی کرایہ کرنے پر آ کر ہی ٹوٹتی۔

اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔

ہم “کولمبو سٹی ہوٹل” کے مین گیٹ پر پہنچ گئے۔ حضرت کامران سامان اتارتے وقت بھی اپنا پہاڑا پڑھے جا رہا تھا اور ہماری ان سنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ایستادہ تھی۔

چار یا پانچ منزلہ ہوٹل پر ہم نے باہر سے ایک طائرانہ نگاہ کی، کامران کو 3000 سری لنکن ادا کر کے ہوٹل میں داخل ہوئے، سامنے ہی کاؤنٹر تھا، جس پر قدرے خوش شکل نوجوان تشریف رکھتے تھے۔

کاؤنٹر ایریا خوبصورتی سے سجایا گیا تھا، کشیدہ کاری تھی، بعض دیواوروں پر چھوٹے چھوٹے پتھروں کا خوبصورت استعمال کیا گیا تھا، کاؤنٹر ایریا مختصر مگر دیدہ زیب تھا۔

کمرشل دنیا کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، دیواروں سے لے کر مسکراہٹ تک، ہر چیز کسٹمر کو لبھانے کا سامان ہے، نگاہوں سے لے کر اداؤں تک، سب کی قیمت کسٹمر کے بل میں ڈال کر اس سے وصول کی جاتی ہے، جسے وہ کھانے، روم چارجز یا اشیا کی قیمت سمجھ کر ادا کر دیتا ہے۔ کسٹمر کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس نے اپنے اوپر نچھاور کی جانے والی نسوانی مسکراہٹ کے کتنے ادا کیے، لمحوں میں کھلتی بند ہوتی نازنین نگاہوں کی قیمت ان کی جیب سے کتنی وصول کی گئی اور وارفتہ اداؤں کا کیا ریٹ تھا۔

میں سامنے رکھے صوفوں پر نیم دراز ہوا، منیر احمد اور ہاشم کاؤنٹر پر اپنی آن لائن بکنگ کا بتا کر اپنے نام پتے بتانے لگے تھے۔

“آپ کی بکنگ اگلے ہفتے سے شروع ہے” کاؤنٹر منیجر نے رجسٹر دیکھ کر بتایا، یعنی آج سے ایک ہفتے بعد آپ کی بکنگ کی تاریخ ہے۔ بکنگ کے اعتبار سے ہمیں ہفتے بعد سری لنکا آنا تھا، جبکہ ہفتے بعد ہماری واپسی تھی۔ عجب تماشا تھا، جب ہم کراچی پہنچ چکے ہوں گے تب ” کولمبو سٹی ہوٹل” میں ہماری بکنگ شروع ہوگی۔

ہم ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور سب سے زیادہ میں اور محمد ہاشم منیر احمد کا منہ تکنے لگے کیونکہ اسطرح کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ اس نے شوقیہ اپنے سر لیا تھا۔ سفر میں منیر احمد کی اور بھی بہت ساری کارستانیاں ہیں؛ آذر بائیجان میں ویزہ ختم ہونے سے بے خبر ہو کر خود پر تین سال تک وہاں کے داخلے پر پابندی لگوا چکے ہیں۔ اس سفر کے لیے کراچی ائیر پورٹ سے وہ فون کے ذریعے ٹیکسی کی بکنگ میں مصروف نظر آئے اور کچھ دیر بعد ہمیں خوش خبری سنائی کہ میں نے ایک جاننے والے کے ذریعے ٹیکسی کی بکنگ کروا دی ہے، ڈرائیور سے بھی بات ہوگئی وہ ہمیں لینے ائیرپورٹ آ جائیں گے، یہ تو ہمارے اصرار پر انھوں نے کولمبو سے ” ٹیکسی” کی تصویر منگوائی جو ٹیکسی کی بجائے”ٹُک ٹُک”( رکشہ) کی تھی۔ یعنی ٹک ٹک پر بیٹھ کر ہم ائیرپورٹ سے شہر جاتے اور دو دن بعد پہنچ پاتے۔۔۔ ایک غائب دماغ منیر احمد ہمارا رہبر و راہنما تھا۔

” آپ کے پاس روم خالی ہیں تو ہمیں دے دیجیے اور وہ بکنگ کینسل کر دیجیے” ہم گویا ہوئے۔
“جی خالی رومز ہیں، آپ آ کر روم چیک کر لیں” منیجر نے خوش اخلاقی سے جواب دیا۔

ہم ایک ویٹر نما لڑکے کی معیت میں لفٹ پر تیسرے فلور پہنچے اور کمرے میں داخل ہوئے، کمرے کی کھڑکیاں شہر کی مین شاہراہ کی جانب کھلی ہوئیں تھیں، سامنے بلند و بالا جگمگاتی عمارتیں اپنے نئے مہمانوں کو دیکھ کر آداب بجا لا رہی تھیں، کمرے کی لمبائی اچھی خاصی تھی مگر چوڑائی ہمارے ذہنوں کی طرح تنگ۔۔۔ کمرہ ہمیں پسند نہ آیا، سو یہ ہوٹل چھوڑنا پڑا۔

آوارہ مزاج ایک بار پھر بیگ اٹھائے سڑک پر آ گئے۔ ٹیکسی تلاش کی تو ٹک ٹک ( رکشہ) مل گیا، سری لنکا میں رکشے اس کثرت سے دستیاب ہیں جیسے ہمارے ہاں دو نمبر شخصیات۔

امام گوگل سے رابطہ کیا تو انھوں نے “مرینہ بیچ ہوٹل” کا پتہ بتا دیا۔ اب ہم تھے، ٹک ٹک تھا، اور ہوٹل کا راستہ تھا۔ اب کی بار کامران نہیں عرفان تھا۔ باتونی، بالکل کامران کی طرح، عقل کا زیادہ استعمال نہ کرنے والا مضبوط جسم کا مسلم نوجوان، جو سری لنکا کے پورے سفر میں ہمارا ڈرائیور رہا اور اب تک ان سے رابطہ ہے۔

کولمبو 2 سے ہم کولمبو 4 پہنچے۔ سامنے سمندر تھا، سمندر کے ساتھ ریلوے لائن بچھی ہوئی تھی۔ جہاں سری لنکا کے مختلف شہروں میں جانے کے لیے ہر گھنٹہ آدھا گھنٹہ بعد ریل گاڑی دستیاب تھی جو مسافروں سے کچھا کھچ بھری رہتی تھی۔ ریلوے لائن کے ساتھ سڑک تھی جو گال روڈ کہلاتا ہے، اور لبِ سڑک عمارتیں، کمرشل زونز، ہوٹلز، کسینوز، شاپنگ مالز اور دیگر چھوٹے بڑے سپر اسٹورز تھے، اور بھی بہت کچھ تھا جنھیں رات کو ہم دیکھ نہ پائے یا سمجھ نہ پائے۔

یہ سڑک ایک جانب ہمارے ہوٹل کو جا رہی تھی جو آگے سری لنکا کے مشہور جنوبی ساحلی شہر بنٹوٹا اور گال شہر کو جاتی ہے۔ بنٹوٹا کولمبو سے 85 اور گال تقریبا 165 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہم بنٹوٹا تو گئے مگر گال جاتے جاتے رہ گئے۔ گال کا نام پاکستان میں کرکٹ کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے جس کے بین الاقوامی اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہوتے ہیں۔ یہ سڑک مخالف سمت شہر کے مشہور مقام گال فیس سے ہو کر وسط شہر کی سڑکوں سے مل جاتی ہے، جہاں سے وہ نگیمبو کو جاتی ہے۔ نگیمبو، کولمبو سے قریب شمالی جانب (40 کلو میٹر) ایک خوبصورت ساحلی شہر ہے جو ایسٹر تہوار کے موقع پر عیسائیوں پر ہونے والے حالیہ بم دھماکوں میں بھی متاثر ہوا۔

سڑک کنارے سمندر کے بالکل سامنے فائیو اسٹار ” مرینہ بیچ ہوٹل” تھا، جس کے پارکنگ ایریا میں ہمارا رکشہ رک گیا۔ ہوٹل کے نقش و نین خوبصورت تھے، لوکیشن پر مر مٹنے کو جی چاہتا تھا۔ پر کرایہ ہم جیسے مڈل کلاسیے کے لیے بے ہوش کردینے والا تھا۔ ہمارے دروازے پر پہنچتے ہی چوکس کھڑے دربان نے در کھول دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply