بزبان ِ یوسفی۔۔۔۔گل نو خیز اختر

کل رات خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ اُردو مزاح کے شہسوارجناب مشتاق احمد یوسفی صاحب جنت کے دروازے میں سے داخل ہورہے ہیں۔ چہرے پر شرارتی سا تبسم ہے اورہمیشہ کی طرح بہترین تراش خراش والا کوٹ پینٹ زیب تن کررکھا ہے۔ساتھ آنے والے فرشتے نے سوال کیا’’یوسفی صاحب! کیا وجہ ہے کہ آپ کی کتابوں میں فارسی مصرعوں اور اشعار کے معانی اکثر صفحے کے نیچے یا قوسین کی شکل میں ملتے ہیں‘‘۔ یوسفی صاحب چلتے چلتے رک گئے‘ ٹائی درست کی‘ اِدھر اُدھر دیکھا اور فرشتے کے قریب ہوکر سرگوشی کی’’فارسی مصرعوں اور اشعار کے معانی فٹ نوٹ یا قوسین کی شکل میں دینے کی دو وجہیں ہیں‘ اولاً نئی نسل کے پڑھنے والوں کو اِن کے معنی معلوم نہیں‘ دوم‘ خود مجھے بھی معلوم نہیں تھے۔‘‘فرشتے نے قہقہہ لگایا اورپوچھا’’سنا ہے سکول کے زمانے میں آپ کی ڈرائنگ بہت اچھی تھی؟‘‘۔ یوسفی صاحب نے سرکھجایا’’ڈرائنگ ماسٹر کہتا تھا کہ تم اپنا نام اتنی محنت اور محبت سے لکھتے ہواور تمہاری حرف کشی اتنی چھی ہے کہ تمہیں فیل کرنے کو جی نہیں چاہتا‘ اگر تم اسکیچ کے نیچے یہ نہ لکھو کہ یہ انگور کی بیل ہے تو تمہیں گھڑونچی بنانے کے سو میں سے سو نمبر ملیں۔‘‘ فرشتے نے ہنستے ہنستے پیٹ پکڑلیا۔ جنت میں داخل ہوتے ہی یوسفی صاحب کے اردگرد جنتیوں کی بھیڑ لگ گئی۔قطار اندر قطار لوگ ان کی طرف لپکے آتے تھے۔جنت کے خوشنما ماحول میں یوسفی صاحب کی آمد نے مزید رنگ بھر دیے تھے۔جنتیوں میں سے ایک نے شائد فرشتے اور یوسفی صاحب کے مابین فارسی مصرعوں کے بارے میں ہونے والی کچھ گفتگو سن لی تھی لہذا فوراً سوال داغا’’یوسفی صاحب!آپ تو غالب کے بھی بڑے دیوانے تھے حالانکہ لوگ کہتے ہیں کہ غالب کو سمجھنا بہت مشکل ہے اسی لیے تو کلامِ غالب کی شرحیں لکھی گئیں۔‘‘ یوسفی صاحب نے آہ بھری’’کلام غالب کی سب سے بڑی مشکل اِس کی شرحیں ہیں‘ وہ نہ ہوں تو غالب کا سمجھنا چنداں مشکل نہیں‘ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دُگنا مزا دیتا ہے‘‘۔ایک اور جنتی نے بڑے اشتیاق سے پوچھا’’یوسفی صاحب آپ جیسا لکھنے والا اور کوئی دُنیا میں بچا ہے؟‘‘۔ یوسفی صاحب کچھ دیر خاموش رہے‘ پھر فرمایا’’اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے‘ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے‘ اتنی خجالت‘ طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرئین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔‘‘ جنتیوں کے قہقہے گونج اٹھے۔ایک جنتی خاتون نے پوچھا’’یوسفی صاحب! آپ اب جنت میں تشریف لاچکے ہیں‘ آپ کے خیال میں آپ کی یہاں کس کس سے ملاقات متوقع ہے؟‘‘ متلاشی نظروں سے ادھر اُدھر دیکھا’بشارت علی فاروقی کے خُسر کیا اِدھر ہی ہیں؟‘‘جواب ملا ‘ ہیں تو اِدھر ہی لیکن اُن سے نہ ہی ملئے تو بہتر ہے’’آب گم‘‘ میں آپ نے ان کے بارے میں جو ’انکشافات ‘فرمائے ہیں اُس کے بعد وہ شدت سے آپ کی آمد کے منتظر ہیں۔یوسفی صاحب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل گئی‘ کہنے لگے وہ یقیناًمجھ سے کمبوہ والے جملے پر ناراض ہوں گے۔ جنتیوں نے فرمائش کی کہ وہ لائنیں دوبارہ ارشاد کی جائیں۔ فرمایا’’قبلہ خود کو کسی زندہ پیر سے کم نہیں سمجھتے تھے‘ اُنہیں جب یہ پتا چلا کہ بیوی اولادِ نرینہ کی منت مانگنے چوری چھپے نامحرموں کے مزار پر جانے لگی ہیں توبہت خفا ہوئے۔بیوی بہت روئیں دھوئیں تو قبلہ کچھ پگھلے‘ مزاروں پر جانے کی اجازت دے دی مگر اس شرط پر کہ مزار کا مکین ’ذات کا کمبوہ‘ نہ ہو خواہ وہ مردہ ہی کیوں نہ ہو۔ اُن کے دُشمنوں سے روایت ہے کہ قبلہ خود جوانی میں ننھیال کی طرف سے کمبوہ تھے‘ اکثر فرماتے تھے’مرگِ کمبوہ جشنے دارد۔‘‘ یوسفی صاحب کی بات سن کر جنتیوں کے لبوں پر بھی مسکراہٹ کھیل گئی۔ایک جنتی دور سے چلایا’’یوسفی صاحب! وہ آپ کے اُس دوست کا کیا حال ہے جس نے گھر میں مادہ کتا پال لیا تھا۔۔۔نر کتا پالنے میں کیا خرابی تھی؟‘‘۔ یوسفی صاحب نے کچھ یاد کیا اور ہنسے’’کسی خیر خواہ نے اُنہیں مشورہ دیا تھا کہ جس گھر میں کتے ہوں وہاں فرشتے‘ چور اور بزرگ نہیں آتے۔ اس ظالم نے یہ نہ بتایا کہ پھر صرف کتے ہی آتے ہیں۔اب سارے شہر کے بالغ کتے ان کی کوٹھی کا محاصرہ ڈالے پڑے رہتے ہیں۔ عفیفہ خود غنیم سے ملی ہوئی ہے۔ایسی تن داتا نہیں دیکھی‘ہر حملہ آور سے تعاون کے لیے تیار رہتی ہے۔پھاٹک کھولنا ناممکن ہوگیا ہے‘ مرد سٹول رکھ کر پھاٹک اور کتے پھلانگتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر یوسفی صاحب نے جنتیوں سے پوچھا’’وہ فدا حسین خاں تائب کدھر ہوتے ہیں؟‘‘۔ ایک آواز آئی’’ہیں تو جنت میں ہی لیکن جب سے آئے ہیں مسلسل روئے چلے جاتے ہیں۔‘‘ یوسفی صاحب بولے’’دنیا میں بھی ان کا یہی حال تھا‘ بڑے اہتمام سے شراب پیتے تھے اورجیسے ہی چڑھتی ‘ اپنی پہلی بیوی کو یاد کرکے بھوں بھوں روتے اور تولیے سے آنسو پونچھتے جاتے۔کبھی لمبا ناغہ ہوجاتا توشراب پر فقط اس لیے بھی ٹوٹ پڑتے کہ ’اِ ک عمر سے ہوں لذتِ گریہ سے بھی محروم‘۔۔۔۔میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ جنت میں یوسفی صاحب کی ملاقات ابن انشاء ‘ پطرس بخاری ‘ غالب‘ اقبال‘ میر اور فراز سے بھی ہوئی۔یہ سب آپس میں انتہائی خوش نظر آئے۔ انہیں سب سے زیادہ مسرت ایک دوسرے سے ملنے کی ہورہی تھی لیکن جملے بازی بھی جاری تھی‘ یوسفی صاحب نے علامہ اقبال کی طرف منہ کیا اور چہک کر بولے’’علامہ اقبال نے ان شاعروں‘صورت گروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس کھایا ہے جن کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔‘‘ قریب ہی یوسفی صاحب کے شاعر دوست حبیب لبیب اور بشارت فاروقی بھی تشریف فرما تھے۔ روئے سخن ان کی جانب کرتے ہوئے بولے’’مگر ہمارے حبیبِ لبیب اور ممدوح بشارت فاروقی اُن بدنصیبوں میں سے تھے جن کی بے داغ جوانی اُس شاعر کے کلام کی طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اورلطف‘ دونوں سے پاک ہے۔‘‘ اتنے میں فراز صاحب اپنے مخصوص انداز میں بولے’’یوسفی صاحب! آپ نے ہم سب سے طویل عمر پائی‘ یہ بتائیے کہ آپ کے لڑکپن میں ٹیکسی ہوتی تھی؟‘‘۔یوسفی صاحب نے سرہلایا’’ٹیکسی ابھی عام نہیں ہوئی تھی‘اس زمانے میں ٹیکسی صرف خاص موقعوں پر استعمال ہوتی تھی مثلاً ہارٹ اٹیک کے مریض کو ہسپتال لے جانے‘ اغواء کرنے اور پولیس والوں کو لفٹ دینے کے لیے۔اور یہ جو ہم نے کہا کہ مریض کو ٹیکسی میں ڈال کر ہسپتال لے جاتے تھے تو فقط یہ معلوم کرنے کے لیے لے جاتے تھے کہ زندہ ہے یا مرگیا۔‘‘پطرس بخاری نے سوال کیا’’لیکن آپ نے بھی تو ابتداء میں ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدی تھی‘ لیکن پھر فوراً بیچ دی‘ وجہ؟‘‘۔ یوسفی صاحب نے قریبی درخت سے سیب کو اشارہ کیا‘ سیب اڑتا ہوا ان کے پاس آگیا۔ انہوں نے ایک ’چک‘ لیا اور بولے’’کار متعدد اندرونی وغیر اندرونی‘ خفیہ اور علانیہ امراض میں مبتلا تھی۔ ایک پرزے کی مرمت کرواتے تو دوسرا جواب دے جاتا۔جتنا پٹرول جلتا اُتنا ہی موبل آئل۔ اور ان دونوں سے دوگنا اپنا خون جلتا۔‘‘ اب کی بار ابنِ انشاء نے سوال داغا’’یوسفی صاحب! آپ نے زندگی کا طویل عرصہ کراچی میں گذارا‘ کیسی آب وہوا ہے کراچی کی؟‘‘۔ٹھنڈی سانس لے کر بولے’’کراچی کی ہوا میں اتنی رطوبت اوردِلوں میں اتنی رقّت ہے کھلے میں ہاتھ پھیلا کراور آنکھیں موند کر کھڑے ہوجاؤ توپانچ منٹ میں چلو بھر پانی اورہتھیلی بھر پیسے جمع ہوجائیں گے‘ اور اگر چھ منٹ تک ہاتھ پھیلائے اور آنکھیں موندے رہو توپیسے غائب ہوجائیں گے۔‘‘۔۔۔میں یہ خواب توڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن میری آنکھ کھل گئی‘ کاش یہ خواب وہیں سے جڑ جائے جہاں سے ٹوٹا تھا۔۔۔(نوٹ! کالم میں شامل یوسفی صاحب کے جملے اُن کی کتاب’آب گم‘ سے لیے گئے ہیں)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply