• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عمران خان آزاد ہیں بجواب محترم اُستاد آصف محمود۔۔۔سید شاہد عباس کاظمی

عمران خان آزاد ہیں بجواب محترم اُستاد آصف محمود۔۔۔سید شاہد عباس کاظمی

عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اس قوم کا ہیرو ہے۔ بے شک اس کے کریڈٹ پہ صرف ایک ورلڈ کپ 92 کی فتح ہے جو واضح جگمگا رہی ہے ۔ مگر اس کے اُس وقت کے ساتھی اور آج کے جاننے والے دونوں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ حقیقتاً کرپٹ یا بے ایمان نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی بخوبی آشنا ہے کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ کی مانگ ایسے ہی ہے جیسے شدید گرمی میں ، بدترین لوڈشیڈنگ کے دوران برف کے  بلاکس کی ہو جاتی ہے۔ اور آپ کو ایک کلو برف لینے کے لیے بھی ٹھیلے کے پاس کم از کم گھنٹہ شدید گرمی میں انتظار کرنا پڑتا ہے مگر آپ مایوس نہیں ہوتے ۔ کچھ ایسا ہی اس لمحے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہے اور   اُستاد محترم آصف محمود نے اُن کو ہیروازم سے باہر نکلنے کی راہ سجھائی ہے ۔ آصف محمود صاحب کے الفاظ سے میرے جیسے طالبعلم لکھنا سیکھتے ہیں، مگر بصداحترام اختلاف کہ عمران خان کا ہیرو ہونا ہی تو عوام کی اُمیدوں کا محور ہے کیوں کہ باقی تمام سیاسی پارٹیوں میں جمہوری آمر قابض ہیں ایک پاکستان تحریک انصاف ہی معروضی حالات میں ایسی پارٹی ہے جس پہ نہ کسی مخصوص خاندان کا قبضہ ہے نہ ہی سیکنڈ لائن قیادت کے اس پہ قابض ہونے کا خطرہ ہے کیوں کہ اس میں اتنی قد آور شخصیات ہیں کہ نقصان کے ساتھ یہ مثبت پہلو بھی ہے کی کوئی پارٹی ہائی جیک نہیں کر سکتا۔

محترم آصف صاحب سرگودہا میں تھے، وہاں کے حال لکھے راقم جڑواں شہروں میں موسم سے لطف اندوز ہو رہا ہے یہاں کے حالات پیش خدمت ہیں۔ شک نہیں الیاس مہربان نے انتخابات 2013 میں بہاردی سے مقابلہ کیا اور علی رضا کا کہنا ہے کہ چوہدری الیاس مہربان کو اگر ٹکٹ مل جاتا ہے تو یہ سیٹ تحریک انصاف کی پکی ہے کیوں کہ اس شخص نے خود کو اہل ثابت کیا ہے اور لوگ احتجاج اُسی کے لیے کرتے ہیں جس کو اپنا نمائندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان اگر کسی مخصوص حلقے کی گرفت میں ہوتا اور رہائی نہ پا چکا ہوتا تو احتجاجیوں سے بذات خود سامنے آ کے گفتگو نہ کرتا۔ شک نہیں کہ ہر پارٹی میں چند افراد اثر و رسوخ رکھتے ہیں، مگر عمران خان رہا ہو چکا ہے۔ وہ لوگوں کے  مرہون منت نہیں رہا۔ وہ ہیرو ازم کی بنیاد پہ بھی پارٹی نہیں چلا رہا ۔ اجمل صابر راجہ نے بنی گالہ کے باہر احتجاج کیا، NA-59 کے ٹکٹ کے لیے ۔ عمران خان نے نہ صرف ملاقات کی بلکہ شکایت کے ازالے کا یقین بھی دلایا، کیا ہیروازم کا شکار ، قید میں جکڑا شخص ایسا کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔

اندر  خانہ چوہدری نثار علی خان سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات چلے، غلام سرور خان ( جو NA-59, 63) کے اُمیدوار بھی ہیں کی رائے نہ صرف پارٹی نے سنی بلکہ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ بھی موخر کر دیا ، کیا کسی اور سیاسی پارٹی کا راہنما ایسے کارکنوں کی سنتا ہے؟ عامر کیانی کے حلقہ انتخاب کے بارے میں احتجاج ہوا ، عمران خان نے موقف سُنا اور فیصلہ تبدیل کر دیا اور اس حلقے کا فیصلہ موخر کر دیا۔ اب اگر کینٹ کے حلقے کے کارکنان عامر کیانی کے یہاں سے انتخابات میں حصہ لینے پہ راضی نہیں تو رائے پہنچائیں۔ قباحت کیا ہے؟ PP-13 سے حاجی امجد محمود چوہدری کے ٹکٹ کی مخالفت ہوئی، عمران خان نے واثق قیوم عباسی( جو اس حلقے سے چوہدری نثار جیسے راہنما کو ناکوں چنے چبوا چکے ہیں) کو اعتماد میں لیا اور اُن کی رضامندی سے فیصلہ کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ چکوال میں ق لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتوں پہ وہاں کے مقامی راہنما ملک یاسر پتوالی یہ عندیہ دے چکے کہ احتجاج حق ہے مگر پارٹی جس کے حق میں فیصلہ دے گی یا جو بھی فیصلہ کرے  گی انہیں قبول ہو گا۔اٹک سے طاہر صادق کو ٹکٹ دینے پہ اختلافات سامنے آئے پارٹی قیادت نے مقامی قیادت کو قائل کیا۔ ملتان کے احتجاجیوں کی محنت بھی شاید رنگ لا رہی ہے، عمران خان سکندر بوسن کے حلقے کی تبدیلی پہ غور کر رہے ہیں۔

کیا جس طرح احتجاجیوں کی عمران خان سُن رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعی کسی مخصوص گروہ کی قید میں فیصلے کر رہے ہیں؟ کیا جس طرح سے وہ اس وقت میں فیصلے کر رہے ہیں جب پارٹی کا ٹکٹ ہاٹ کیک بنا ہوا ہے یہ ایک ہیرو ازم کا شکار شخص کر سکتا ہے یا پھر حقیقی سیاسی راہنما؟ علی محمد خان کی مثال سامنے ہے اس بھلے لوگ نے تو پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پہ بھی پارٹی کا ساتھ نہ چھوڑنے کا تہیہ کیا تھا؟ کیا ایسا شخص ناکامی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ انتخابات میں کامیابی ناکامی ایک الگ بحث ہے ۔بطور سیاسی راہنما تو وہ دانشمندی کی ایسی مثال قائم کر رہا ہے کہ جو کسی اور سیاسی پارٹی کے راہنما میں تو فی الحال مفقود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مخصوص وقت میں ہی تو عمران خان ہیروازم سے ہٹ کے فیصلے کر رہا ہے، وہ شاید 92ء کی فتح کے سرور سے آگے بڑھ چکا ہے۔ اور مخصوص افراد کی سوچ سے بھی رہائی پا چکا ہے۔ باقی میرے اُستاد محترم آصف محمود صاحب بہتر جانتے ہیں، شاید میں ہی غلط ہوں ۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply