لبرل نظام کیخلاف اپنے ہی ناظم کی سرکشی۔۔۔سجاد مرادی کلاردہ

امریکہ میں نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس ملک کا عالمی معاہدوں اور تنظیموں خاص طور پر اقوام متحدہ سے مربوط اداروں سے عجیب طرز عمل شروع ہوا ہے اور نئی امریکی حکومت نے عالمی معاہدوں اور تنظیموں کو ترک کر دینے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ امریکہ کی جانب سے ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے سے دستبردار ہونا، اقوام متحدہ کے علمی ثقافتی ادارے یونیسکو کو ترک کر دینا، امریکی مفادات کی تکمیل نہ ہونے کے بہانے ایران سے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونا اور ایشیا پیسیفک تجارتی معاہدے کو خیرباد کہہ دینا چند اہم ترین مثالیں ہیں۔

حال ہی میں امریکہ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے بھی نکل جانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کونسل ہیومن رائٹس کمیشن کی جگہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 251/6 کے تحت 15 مارچ 2006ء میں تشکیل پائی تھی۔ اقوام متحدہ میں امریکی نمائندے نیکی ہیلی نے اس کونسل سے نکل جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی کونسل نے اسرائیل مخالف اقدامات کی حمایت کی ہے اور ایران اور چند دیگر ممالک میں ان کے بقول انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی مناسب اقدامات انجام نہیں دیئے۔ اس امریکی طرز عمل کو کئی اور پہلووں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے:

1)۔ انسانی حقوق کی کونسل جیسی عالمی تنظیموں سے امریکہ کی دستبرداری پر مبنی رجحان صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے وعدوں پر استوار ہے۔ انہوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران ہمیشہ اس بات پر زور دیا تھا کہ امریکہ ایسے معاہدوں کو اہمیت دے گا جو امریکی ورکرز، معیشت اور ٹیکس دہندگان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ یوں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں اور روایتی قوم پرستی کی طرف واپسی میں انسانی حقوق کے اداروں کی کوئی حیثیت نہیں۔

2)۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے باہر نکل جانا ہر چیز سے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسیوں میں تقویت کا باعث بنے گا۔ عالمی سطح پر امریکی طرز عمل ماضی کی سب کو ساتھ ملانے کی کوششوں اور چند طرفہ پالیسیوں سے دور ہونے کے باعث یکطرفہ فیصلوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے امریکہ کے اندرونی اور شخصی مفادات کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور وہ عالمی برادری کے اجتماعی مفادات کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ “سب سے پہلے امریکہ” کی پالیسی پر گامزن ہیں اور عالمی برادری اور دیگر ممالک پر امریکی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔

3)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کی کونسل سے باہر نکل جانے کا فیصلہ اس ملک کی غاصب صیہونی رژیم کی غیر مشروط حمایت کے تناظر میں انجام پایا ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ امریکی صدور سے بڑھ کر غاصب اسرائیلی رژیم کا حامی ہے۔ اس بات کا واضح ثبوت اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ یہ امر موجودہ امریکی صدر کی ماضی کے امریکی صدور سے مختلف طرز فکر اور طرز عمل کو ظاہر کرتا ہے۔

4)۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے باہر نکل جانے کا نتیجہ امریکی خارجہ سیاست میں عدم استحکام کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی خصوصیات میں سے ایک عدم استحکام ہے۔ ان کی دیگر خصوصیات میں لاپرواہی، جلد بازی، حماقت اور قابل اعتماد نہ ہونا شامل ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی نظر میں عالمی و دیگر معاہدوں کی رو سے امریکی ذمہ داریوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔ اس کا نتیجہ قانونی میدان میں امریکہ کے بے اعتبار ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ چیٹہم ہاوس تھنک ٹینک کے محققین نے حال ہی میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا پر حکمفرما لبرل نظام کی حمایت کرنے اور اسے مضبوط بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply