سانحہ یہ ہے۔۔۔رابعہ احسن

عید ہو رمضان، شبرات، محرم مطلب کوئی بھی دکھ  یا خوشی کا تہوار ہو ہمارا اہم فریضہ سوشل میڈیا پر پوسٹس کا رش اور میسجز میں جمعہ بازار ل جاتا ہے سب کا دین، اسلام محض الفاظ کے کهوکهلے برتنوں تک محدود ہوکے رہ جاتا ہے اعمال تو نظر آہی رہے ہوتے ہیں۔ اب ہم محض باتوں کے پیر ہوکے رہ گئے ہیں بس اور باتیں بهی سوشل میڈیا پر باآواز بلند ، اتنی بلند کہ کچهه غریب سچ پہ پلنے والوں کا سکون ہی برباد ہوکے رہ جاتا ہے اتنا کہ اس ٹائپ کے میسیجز دیکهنے کو بهی دل نہیں کرتا کہ کم از کم عید پہ ہی اپنے پیاروں سے مل کے چہرے کی دید کرائیں اگر وہ بهی ممکن نہیں تو محض آواز کی ہی نوید سنادیں۔
یہ ٹیکسٹ میسیجز والا عید مبارک صرف مڈل ایسٹرن ممالک کیلئے استعمال کریں جہاں پہ عربوں کی نیک قوم نے پوری دنیا سے ہٹ کے نرالا ہی سسٹم رکها ہوا ہے کہ کسی بهی قسم کی فری کال ادهر سے نہ آسکتی ہے نہ ہی ادهر جاسکتی ہے۔ یہ مجبوروں والی ٹیکسٹ میسیجنگ صرف ادهر کیلئے چهوڑ دیں۔ رونا تو یہ ہے کہ عید تہواروں پہ ایسے ایسے لوگوں کے مبارکباد کے میسیجز آجاتے ہیں جو سارا سال ہمیں منہ نہیں لگاتے پر عید پر میسیج میں پہل کرکے سیدهے جنت میں جانے کا اپنا سامان تیار کرلیتے ہیں اور ہمیں اک میسیج پر ہی جہنم بدر کرجاتے ہیں حالانکہ بات تو نیت کی ہے پر نیت کون دیکهتا ہے؟
سوشل میڈیا پر عید کے جمعہ بازار میں سے گزرتے ہوئے ایک پوسٹ پر نظر پڑی تو اپنے انسان ہونےپر سراسر شرمندگی ہوئی۔ تین معصوم بچیوں کی جلی سڑی مسخ شدہ لاشیں 97 کلومیٹر فی گهنٹہ کی رفتار سے چلنے والے ریت کے طوفان کےباعث ریت کی تہہ میں دهنسی ہوئی پائی گئیں۔ جس وقت اشرافیہ عید کی شاندار تیاریوں میں مصروف گهر کے پردے تک خاتون خانہ کے کپڑوں سے میچ کرنے میں مصروف تهی غریب ہاری کا خاندان تحصیل فورٹ عباس میں مزدوری کی تلاش میں آیا۔ 45 ڈگری کی گرمی اور 97 کلومیٹر فی گهنٹہ کی رفتار سے چلنے والے طوفان کے باعث بچیاں راستہ بهٹک گئیں۔
غریب ماں باپ جن کی تین بچیاں لاپتہ تهیں دودن تک ریگستان میں بچیوں کی تلاش میں بهٹکتےرہے۔ پولیس یا کسی بهی حکومتی ادارے نے ان کی کوئی مدد نہ کی ۔ اپنی مدد آپ کے تحت بهٹکتے ہوئے ورثا کو تین دن بعد معصوموں کی بری طرح جلی ہوئی ،ریت اور مٹی سے بری طرح اٹی ہوئی لاشیں ملیں۔ ایک بچی 9 سال، دوسری سات اورتیسری 5 سال کی تهی۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بچوں، بوڑهوں، بے سہارا لوگوں کی ذمے داری ریاست پر ہوتی ہے ۔ مغربی ممالک میں کہیں اگر یہ واقعہ ہوتا تو علاقے میں ایمرجنسی الرٹ لگادیاجاتا ہیلی کاپٹروں پر ڈهونڈاجاتا اور کوئی کسر نہ چهوڑی جاتی ۔

اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے اور قائم کئے گئے اس ملک میں انسانیت تڑپ رہی ہے۔ مجهے تو یہ سوچ سوچ کر شدید اذیت ہورہی ہے کہ کیسے ریت اور مٹی کے جهکڑوں نے تین معصوموں کی جان لی ہوگی۔ ان کی پیاس، ان کی آہیں سننے والا دور دور تک کوئی بهی نہیں تها۔ جہاں سارا عالم اسلام طاق راتوں کی اپنی عبادات کی سرشاری لئے اپنے رب کے سامنے سربسجود پڑا ہوا عید کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہا تها وہاں دیگر پامالی_انسانیت کے ساتهه ساتهه یہ تین بچیاں اکیلی آندهی طوفان سے لڑتی جهگڑتی اپنی جان سے ہاتهه دهوبیٹهیں ۔ ایک گهر سے تین لاشیں وہ بهی معصوموں کی۔ کتنی تکلیف دہ صورتحال ہے۔
ہماری ریاست پر صرف چند خاندانوں کی ذمے داری ہے اور شدید ذمے داری ہے۔ خاندان بهی وہ جو اشتہاری ہیں مگر یہ بهی انسانیت کی ہی تذلیل ہے کہ ملک کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے لٹیروں ، قاتلوں کو آج تک کوئی پوچهنے مانگنے والا نہیں ۔ عدالتوں نے محض فیصلے سنادئیے ہیں اس کے بعد کچهه نہیں۔ پاکستان میں لوگ جعلی دوائیوں، ادویات اور میڈیکل سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث آئے دن مرجاتے ہیں۔ گاوں اور قصبوں سے شہروں کو لے جاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑجاتے ہیں۔ بهوک، پیاس، گرمی سے بدحال عوام کا شاہی خاندان اس وقت لندن میں بیٹها والدہ ماجدہ کلثوم نواز کیلئے پورے ملک سے دعاوں کی اپیل کررہا ہے گوکہ محترمہ کا سیاست سے ڈائریکٹ تعلق ہے تو نہیں مگر اس وقت شریفوں کی ساری سیاست محترمہ کے وینٹیلیٹر سے جالگی ہے ۔ جو کہ لندن کے کسی مہنگے ترین کلینک میں زیر علاج ہیں۔ الیکشن کے وقت تو تمام سیاسی پارٹیوں کے امیدوار قوم کی خدمت کا وعدہ کرتے ہیں مگر الیکشن جیتتے ہی تختہ الٹ جاتا ہے اور قوم کی خون پیسے کی کمائی ان حکمرانوں کے پورے پورے خاندان کی خدمت میں جهونک دیا جاتا ہے اور لوگ عقل کے اندهے ہیں جو ان لوگوں کو سپورٹ کرتے رہتے ہیں جن کی خوشی، غمی، جائیداد، اولاد سب لندن میں ہیں چهینک آجائے تو لندن ۔ جہاں عام آدمی کیلئے کسی بهی ملک کا ویزا حاصل کرنا ناممکنات میں سے ایک ہے ۔ ملک کےنوجوان چارولاچار دونمبر طریقے سے بیرون ملک جاتے ہیں بہتر مستقبل کیلئے کیونکہ پاکستان میں ملازمت کے مواقع بهی دیگر سہولیات کی طرح ناپید ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کلثوم نواز کی بیماری کو جو خفیہ طول دیاجارہا ہے اور عوام کو آگے لگایا جارہا ہے تو پاکستانی قوم کو بهی اس بات کا احساس کرلیناچاہیئے کی جس بیماری کی نوعیت کا ہی انهیں پتہ نہیں۔ اس بیماری کی ہمدردی میں وہ دوبارہ ان مفاد پرستوں کو نہ لے کے آجائیں۔
اور پهر تکلیف اور اذیت تو سب کی برابر ہوتی نا ں یا پهر چهوٹی بستیوں یا بے گهر لوگوں کو تکلیف ہوتی ہی نہیں۔ اس شدید تضاد کا خاتمہ نہ جانے کب ہوگا مگر حقیقت یہی ہے کہ دل بری طرح جلتا ہے یہ سب دیکهه کر۔ انسانیت کا دیوالیہ نکل گیا کوئی تو آئے جو غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکے کیونکہ ہم لوگ دماغی طور پر بهی غلام ہوچکے ہیں۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply