حکمران کی اطاعت اور اس کے چال چلن اور امورحکمرانی میں بددیانتی پر اعتراضات دو الگ موضوع اور الگ فعل ہیں۔میرے ناقص علم میں احادیث اطاعت کا درس تو دیتی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ حق رعیت کو تفویز کرتی ہیں کہ حکمران کی بددیانتی اور ظلم کو وہی کہا جائے جو وہ اصل میں ہے،اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امیرالمومنین خواہ حکمران ہو یا خلیفہ وقت اﷲ نے اس کو بندوں پر کھلی چھوٹ دے کر نہیں بٹھایا۔یہ الگ بات کہ بغاوت سے منع فرمایا ہے مگر حکمران کا احتساب کرنے سے نہیں روکا ورنہ حضرت عمر رض کے بیٹے عبداللہ رض کی طرف سے اپنے والد عمر رض کو دئیے گئے مال غنیمت کے اپنے حصے کےکپڑے کا حساب مدینہ کی عوام نہ مانگ سکتی اور نہ ہی اس پر کوئی سوال کر سکتی تھی۔
اگر ایک وقت کے جلیل قدر صحابی ،خلیفہ عوام کی عدالت میں جواب دے ہو سکتے ہیں تو یہ ہمارے سیاست دان اور حکمران کس کھیت کی مولی ہیں کہ ان کو حکمران اور امیر المومنین کا خطاب دے کر ہر چیز سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے اور اطاعت کو فرض مان کر ہر ظلم اور زیادتی پر خاموشی اختیار کی جائے۔”جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے “جیسے امام حسین رض کے قول کی کیا حقیقت ہے پھر؟
تھوڑا نہیں پورا سوچیئے۔۔۔صرف دشمنی پالنے سےحقائق بدل نہیں جاتے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں