کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ

اسلامک سمٹ کے بہانے عرب امریکہ تعلقات میں گرمجوشی دیکھ کر میرا دل بہت بے چین رہا تھا۔اس بے چینی کی وجہ بھی جلد ہی منظر عام پر آگئی جس نے بے چینی کو مزید بڑھا دیا۔ہم سب صحافت کے طالبعلموں بشمول میرے, اس بات کو لے کر تذبذب کا شکار تھے کہ اسلامک سمٹ میں عربوں نے پاکستان یا دراصل عجم کو نظر انداز کرکے ہماری قومی و ملکی سطح پر شدید بے عزتی کی ہے لیکن کمال ہے اس ذات باری تعالی ٰکا کہ جس کے ہر ایک کام میں حکمت اور مصلحت موجود ہوتی ہے۔پاکستان اور عجم کی اس عربوں کی جانب سے نظراندازی اور بے عزتی میں ا ﷲ کی جانب سے جو حکمت و مصلحت موجود تھی وہ اب کچھ کچھ سمجھ میں آرہی ہے کہ اﷲ نے پاکستان کو ایک بہت بڑی آزمائش اور فتنے سے فی الوقت محفوظ کرلیا ہے مگر مستقبل میں موجود خطرہ ابھی بھی سر پر منڈلا رہا ہے جس کے تدراک کے لیئے پاکستانی عوام, فوج اور حکومت کو ایک پیج پر لازمی آنا ہوگا، عرب، ایران اور امریکی خارجہ پالیسی پر۔

بات کچھ اس طرح سے ہے کہ سعودیہ عرب کا نادیدہ جھکاؤ اسرائیل کی جانب پچھلی دو دہائیوں سے ہے با نسبت ایران اور ایران نواز پڑوسی ریاستوں کے جو اس اسلامک سمٹ میں امریکی مداخلت کے بعد اور امریکی شہہ پر کھل کر سامنے آ رہا ہے۔امریکی صدر کا ریاض کانفرنس میں پرجوش شرکت کے بعد دوگنا جوش کے ساتھ تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاض تل ابیب فضائی راستہ استعمال کرکے جانا محض کوئی اتفاق نہیں اور پھر اسرائیلی زعماء بشمول اسرائیلی وزیراعظم تک کےعرب بلخصوص سعودی عرب کے حوالے سے نرم اور مثبت بیانئے ایک عقل مند کو کافی کچھ سمجھانے کے لیئے کافی ہیں۔مثلاً امریکی صدر کے طیارے نے جب تاریخ میں پہلی بار ریاض اور تل ابیب کے درمیان براہ راست پرواز کی اور ایسا ہونا بھی ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ تھا تا کہ سفارت و مصالحت کا راستہ ہموار کرنے سے پیشتر زمینی و فضائی راستوں میں ہم آہنگی قائم کی جاسکے تو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دل میں دبی ایک خواہش ایک موقع پر یوں زبان پر آئی کہ
“مجھے امید ہے کہ ایک دن ایک اسرائیلی وزیراعظم تل ابیب سے ریاض پرواز کر کے جا سکے گا”۔

جب عربوں کے فضائی و زمینی راستوں پر قطر کی آمدورفت پر پابندی کی باتیں چل رہی تھیں تو مسلمانوں اور انسانیت کا دشمن ریاض اور تل ابیب کے درمیان دوستی کی خاطر سفارتی زبان کا استعمال کرکے امن اور دوستی کی شمع روشن کرہا تھا،اور اوپر سے مستزاد یہ کہ سعودی عرب کی شہہ پر مصر, بحرین اور عرب امارات کا قطر سے مشترکہ بائیکاٹ جبکہ دوسری جانب ایران کی قطر کو مکمل مدد اور حمایت نے خطے میں بڑھتے انتشار اور خلفشار کی جو منظر کشی کی ہے وہ ایک بات واضح کررہی ہے کہ سعودیہ نے امت واحد کا نظریہ رد کرکے نسلی و مسلکی نظریے کو پروان چڑھانے کی خاطر دشمن کے دشمن کو دوست سمجھ اور مان لیا ہے خاص کر جب امریکہ کی مکمل حمایت بھی ساتھ ہے تو کوئی شک نہیں رہ جاتا۔

میری اس بات کو تقویت اس وقت پہنچی جب عربوں کے اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کے پچاسویں سالگرہ نما سالانہ جشن کے موقع پراسرائیل کے سابق وزیر دفاع اور ملک کے چوٹی کے سیاستدانوں میں سے ایک موشے یالون نے تقریب سے خطاب کے دوران اس مسئلے پر تفصیلی اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا
“قطر کے علاوہ زیادہ تر عرب ریاستیں اور ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں کیونکہ ہم سب ایٹمی ایران کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں”۔
اور اسی طرح عرب ممالک کی جانب سے قطر کے مقاطعے پر اسرائیلی وزیر دفاع لائبرمین کا تبصرہ تھا کہ” یہ بحران اسرائیل اور”چند” عرب ریاستوں کے درمیان تعاون کے مواقع لے کر آیا ہے”۔جبکہ اسرائیل کے ڈپٹی منسٹر برائے سفارتکاری مائیکل اورین نے اپنے ٹویٹر پیغام میں دعویٰ کیا کہ”مشرقِ وسطیٰ کی ریت پر نئی لکیر کھنچ گئی ہے”۔

یہ اسرائیلی زعماء کے بیانات مختصر مگر جامع تبصروں اور مقاصد کو واضح کرنے کے لیئے بہت ہیں اگر کوئی سمجھنا چاہے اور عربوں کی پراسرار خاموشی کے ساتھ ساتھ امریکی مداخلت اس پر مہر ثبت کررہی ہے کہ بہت جلد عرب اسرائیل اتحاد ایران کے خلاف قائم ہونے والا ہے،خواہ اس اتحاد کی حدود و قیود مشروط ہی کیوں نہ ہوں خواہ وہ اتحاد پوشیدہ سفارتی ذرائع پر ہی کیوں مشتمل نہ ہو مگر ایسا ممکن ہے۔سعودی گزٹ و دیگر”آزاد” میڈیا اور حکومتی ترجمان و اہل کار جو اسلامک سمٹ اور امریکی دوستی کی تجدید سے پہلے کسی بھی اسرائیلی بیان پر کچھ نہ کچھ ڈھکے چھپے انداز میں تردید یا تنقید کردیا کرتے تھے اب بالکل خاموش ہیں تو مطلب پوری دال کالی ہے ۔سعودی عرب نے قطر سے بائیکاٹ کے لیئے جو الزامات عائد کیے ہیں وہ بھی سراسر خطے میں براہ راست اسرائیلی و امریکی مفادات کے تحفظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے اخوان المسلمین اور حماس جیسی اینٹی اسرائیلی تنظیموں کی پشت پناہی کی آڑ میں دہشت گردوں کی عملاً سپورٹ پر سعودی اعتراض الزامات کی لسٹ میں سب سے اوپر ہے ،اورٹرمپ کے سعودی دورہ خاص سے تل ابیب پرواز کے بعد امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کی وہ رپورٹ جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب سمیت بحرین, مصراورعرب امارات کے سربراہان نے ایک مشترکہ تجاویز پر مشتمل لائحہ عمل ٹرمپ کے ساتھ طے کیا ہے جس میں وہ یعنی عرب ریاستیں اسرائیل کو مشروط سفارتی تعلقات کے ساتھ قبول کرنے کو تیار ہیں۔

یہ ساری باتیں اس بات کو تقویت دیتی ہیں کہ”کہیں پہ نگاہیں اور کہیں پہ نشانہ” کے مصداق قطر بائیکاٹ کی آڑ میں سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستیں اسرائیلی اور امریکی خوشنودی و مدد حاصل کرکے ایران کے خلاف حتمی جنگ چھیڑنے کےحق میں ہیں۔یہ سب باتیں اور منصوبے راتوں رات تیار نہیں ہوئے بلکہ یمن ،سعودی تنازعے کے آغاز اور بعد میں حوثی باغیوں کی ایرانی و قطری پشت پناہی نے سعودیہ و دیگر سعودیہ نواز ریاستوں کو مل بیٹھ کر یہ کرنے پر مجبور کیا۔چونکہ یمن جنگ میں پاکستان نے سعودیہ کو فقط ثالثی کردار ادا کرنے کے علاوہ اور سارے معاملات سے ہاتھ کھینچ لیا تھا تو اسی کا غصہ اسلامک سمٹ میں پاکستان کو ہر معاملے میں پیچھے رکھ ر اتارا گیا۔اور دوسری بڑی وجہ پاکستان کی وہ متوقع شدید مخالفت ہو سکتی تھی جو عرب اسرائیل اتحاد کو بھانپ کر پاکستان نے کرنی تھی۔

اس لیئے سمٹ میں نظر انداز کیا جانا پاکستان کے حق میں مشیت ایزدی تھا کہ پاکستان ہی وہ ریاست ہے جس کی افواج کے حوالے سے نبیﷺ نے پیشن گوئیاں فرمائیں ، کہ عربوں کی جنگی و اخلاقی مدد کریں گے اور شام کا معرکہ لڑیں گے یہاں تک کہ دجال اور بنی اسرائیل اپنے انجام تک نہ پہنچ جائیں۔بہرحال یہ عرب خارجہ پالیسی کا یو ٹرن خطے میں بہت ہی خطرناک نتائج لے کر آئے گا ۔ہمیں اس انارکی اور انتشار کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیئے جس کی بدولت پہلے مصر, مراکش, لیبیا, شام اور عراق کی عوام اور حکومت کو غیر مستحکم کرکے امریکی اجارہ داری قائم کی گئی ہے اور اب وہ صرف کٹھ پتلی کا کردار ادا کرر ہے ہیں۔امریکہ اور اسرائیل کا سعودیہ پر ایرانی خوف مسلط کرکے ایک تیر سے کئی شکار کا فارمولہ سعودیہ عرب نظر انداز کرکے اطراف کی ریاستوں جیسے انجام کی طرف گامزن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اصل نشانہ ایران نہیں بلکہ سعودی عرب اور حجاز مقدس ہے امریکہ اور اسرائیل کے نزدیک مگر وہ دونوں اپنی نگاہیں ایران کی طرف دکھا کر سعودیہ کو لپیٹ میں لے رہے ہیں تاکہ سعودیہ ان کے اصل مقاصد تک رسائی حاصل نہ کرسکے اور یہ خاموشی سے گریٹر اسرائیل کا اپنا خواب شرمندہ تعبیر کرسکیں۔جب سعودیہ کا وجود نہیں ہوگا تب ایران اور پاکستان کو جنگ میں کھینچنا ذرا مشکل یا ناممکن نہیں ہوگا۔اﷲ سعودیہ کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے اور پاکستان کو ایسی آزمائش سے دور رکھے جو سراسر فتنہ ہے۔بیشک پاکستان کو مصالحت اور امن کے لیئے کوشاں رہنا چاہیئے خواہ اس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply