پاکستان میں ذہنی امراض

کچھ عرصہ قبل مجھے ایک ذہنی امراض کے سرکاری ہسپتال جانے کا موقع ملا۔ پہلے پہل تو یقین ہی نہیں آیا کہ یہ ایک ہسپتال ہے۔ محسوس ہوتا تھا کہ کوئی جیل ہے جہاں مریضوں کو زنجیروں سے باندھا گیا تھا۔ کئی ایک مریض تو کال کوٹھڑی نما کمروں میں بند تھے جن کے آہنی دروازوں میں فقط دو چھوٹی کھڑکیاں بنی ہوئی تھیں۔ ایک دروازے کے اوپری حصے میں بات چیت کرنے کیلئے اور ایک دروازے کے نچلے حصے میں کھانہ کمرے کے اندر دھکیلنے کیلئے۔ ایسی ہی ایک کال کوٹھڑی میں بند مریض سے گفتگو ہوئی۔۔۔ اس کا نام شمائلہ (مریضہ کے وقار کو برقرار رکھنے اور تحفظ کی خاطر نام تبدیل کیا گیا ہے) تھا۔ ایم اے ڈگری ہولڈر تھی اور پچھلے ایک سال سے وہ اسی ہسپتال میں علاج کیلئے مقیم تھی۔ میری اس سے گفتگو کا سلسلہ بھی نہایت عجیب انداز میں شروع ہوا۔ میں شمائلہ کی کوٹھڑی کے پاس سے گزری تو اس نے نہایت منت بھرے انداز میں مجھے متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ”اللہ کا واسطہ ہے میری ایک بات سن لیں، میں پاگل نہیں ہوں”۔

میں پہلے تو تھوڑا گھبرا گئی لیکن پھر شمائلہ کی متواتر منت سماجت کی وجہ سے میں نے سوچا کہ یہ تو کمرے میں مقید ہے، مجھے بھلا کیا نقصان پہنچا سکے گی۔ میں اس کے دروازے کی کھڑکی کے قریب پہنچی اور پوچھا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے اور اس کے بعد جو بات اس نے مجھے بتائی اس سے میری روح کانپ اٹھی۔ شمائلہ پاگل نہیں تھی۔ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی اور تمام تر جائیداد کی کُل وارث تھی۔ والدین کے انتقال کے بعد اس کے چچا نے جائیداد ہتھیانے کیلئے اسے پاگل قرار دیتے ہوئے ذہنی امراض کے اس ہسپتال میں داخل کروا دیا تھا اور وہ یہاں اس کال کوٹھڑی میں”خطرناک پاگل” کی کیٹیگری میں شمار اپنی زندگی کے دن گزار رہی تھی۔

یہ تو اس ہسپتال میں چھپی بہت سی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت تھی جس کا تجربہ مجھے اس ہسپتال کے وزٹ کے بعد ہوا۔ اب ایک نظر ذرا پاکستان میں ذہنی امراض کی صورتحال پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 50 ملین شہری ذہنی امراض کا شکار ہیں اور ان میں سے 15 سے 35 ملین بالغ افراد ہیں۔ اسی طرح ان میں 20 ملین تعداد ان بچوں کی ہے جو نیشنل ہیلتھ پریکٹیشنرز کی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔ ڈبلیو ایچ او (WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں لگ بھگ 400 ذہنی امراض کے ماہرین ہیں اور 5 ہسپتال، یعنی کہ ہر 5 لاکھ افراد کے لئے ایک ڈاکٹر کی سہولت ہے۔ حالیہ بجٹ برائے مالی سال 2017-18 میں 48701.460 ملین کی رقم ہیلتھ سیکٹر کیلئے مختص کی گئی ہے جس میں صحت کے حوالے سے کئی نئے منصوبے شامل ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں ذہنی امراض کے شعبے کیلئے کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا۔ یہ اعدادوشمار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں ذہنی صحت کیلئے کس قدر سہولیات موجود ہیں اور مستقبل کیلئے کیا ترجیحات متعین کی جا رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کوئی بھی بیماری یا تکلیف بڑی نہیں ہوتی اگر اس سے نمٹنے کیلئے درکار وسائل اور سسٹم موجود ہوں اور اس ضمن میں ذہنی امراض کا شعبہ ہمیں مشکلات سے دوچار نظر آتا ہے جس کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ دو وجوہات بہت اہم ہیں:
1۔اس شعبے میں ذہنی امراض کے مریضوں کی بحالی کیلئے وسائل کی کمی اور حکومت کی جانب سے مزید وسائل کا مختص نہ کرنا۔
2۔صحت یاب ہو جانے والے مریضوں کے سماجی بازِ استحکام (social reintegration ) کیلئے کسی مربوط نظام کا فقدان۔
سب سے اہم مرحلہ سماجی بازِ استحکام ہے اور اس کیلئے ایک مربوط نظام کا ہونا نہایت ضروری ہے جو کہ نہ تو ذہنی امراض کے ہسپتالوں میں موجود ہے اور نہ ہی جیلوں، دارالامانوں اور منشیات سے بحالی کے اداروں میں۔ اس مربوط نظام کے چار بنیادی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔نفسیاتی و سماجی،
2۔طبی،
3۔قانونی ،
4۔تحفظ و سلامتی!
ان چاروں شعبوں کے ماہرین کا مربوط انداز میں کام کرتے ہوئے ذہنی مریضوں کیلئے ایک پلان تیار کرنا social reintegration plan کہلاتا ہے کہ سماج میں واپس جا کر مؤثر انداز میں ضم ہونے میں اسے کیا ممکنہ مدد درکار ہوتی ہے اور یہ تمام پلان مریض کی مشاورت سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس پلان کی تیاری کے بعد ماہرین مریض کے گھر والوں سے بھی مشاورت کرتے ہیں تاکہ مریضوں کو ان کے خاندانوں سے بھی وہ تمام تر مدد ملتی رہے جو انہیں معاشرے کا ایک کارآمد اور باوقار شہری بنا سکتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ذہنی امراض کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ مختص کرے اور سماجی بازِ استحکام کو مزید مضبوط کیا جائے اور اس کے ماہرین کی تربیت سازی کی جائے تاکہ وہ جیلوں، دارالامانوں اور منشیات سے بحالی کے اداروں سے نکلنے والے افراد کی مؤثر سماجی بحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”پاکستان میں ذہنی امراض

  1. بہت عمدہ
    بلاشبہ ہمارے ہاں زہنی مریضوں پرکوئی توجہ نہیں دی جاتی بلکہ المیہ یہ ہے کہ ایسے مریضوں کو ہم اپنی ہنسی مذاق کا ذرئعہ سمجھتے ہیں

Leave a Reply