مجھے شناخت کب ملے گی۔

حالات کچھ ایسی نہج پر بہہ نکلے ہیں کہ خیال آتا ہے آخر کب تک اس ملک میں ایسا ہی چلتا رہے گا۔۔۔۔ ایک انسانی المیہ ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔۔میری پیدائش اس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہوئی، بنیادی تعلیم سے لے کر گریجوایشن مکمل کیا ۔ دو برس قبل میں نے اپنا شناختی کارڈ جمع کروایا تھا جس پر نادرا انتظامیہ نے میری مادری زبان کو میرے لئے ایک سوالیہ نشان بنا دیا اور میرے بارے میں پاکستانی ہونے کی تحقیقات شروع کرا دی گئیں، اور دو سال تک میں نادرا دفاتر کے چکرلگاتا رہا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ گزشتہ سال میں نے ایکسپریس کے کالم نگار رضوان طاہر مبین سے رابطہ کرکے ملاقات کا ٹائم لیا ، اورمقررہ دن پر ان سے مل کر انہیں مسئلے سےآگاہ کیا،کیونکہ قلم ہی ان کا ہتھیار ہے سو میری مدد بھی مسئلے کے بارے میں ایک عدد بہترین کالم لکھ کر کی گئی۔
اس کے بعد میں نے روزنامہ طاقت کے کالم نگار شاہد عباس کاظمی سے رابطہ کیا، جس پر انہوں نے اخبار اور دیگر مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے مجھ سمیت تمام بنگالیوں کے بنیادی حقوق اور شناخت کے مسائل پر تحریریں شائع کیں ۔۔۔اتنی تگ و دو کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو پائے۔ گزشتہ ماہ مجھے ایک صحافی کی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کی دعوت ملی ، جس کے مہمان خصوصی میں شرمیلا فاروقی، نثار کھوڑو اور گورنر سندھ سید مراد علی شاہ شامل تھے۔ میں نے محترمہ شرمیلا فاروقی اور نثار کھوڑو صاحب سے اپنا مدعا بیان کیا لیکن وہاں بھی ہنوز خاموشی طاری ہے۔کل پھر سے اپنے شناختی کارڈ کے ری-پروسس کے لیئے نادرا دفتر جانا ہوا تو وہاں ڈیوٹی پر موجود دو افسران نے مجھے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور جملے بازی کی ،اور آج مجھے پاکستانی کی بجائے بنگلہ دیشی ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہےاور کیس کر دیا گیا ہے۔اب سمجھ سے بالا تر ہے کہ خود کو پاکستانی ثابت کرنے کے لیئے کون سی اگنی پریکشا دینا ہوگی۔۔۔کچھ آپ ہی عرض کیجئے!

Facebook Comments

شاہد شاہ
سو لفظی کہانیاں اور مکالمہ لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply