ایک بھکاری کی کہانی جو خود کو بورخیس سمجھتا ہے

کسی بھی حقیقی چوک کی طرح اس فرضی چوک( جس کے بارے میں بات کی جا رہی ہے )کے وسط میں ایک بھکاری بیٹھا ہے۔لیکن کسی بھی حقیقی چوک کے برعکس آپ اسے رات کو بھی یہیں موجود پائیں گے۔ کسی شخص نے اسے سگریٹ پیتے نہیں دیکھا اور نہ اس نے کوئی کتا پال رکھا ہے۔۔
اسے شاعری سے بھی دلچسپی نہیں اور اس کا واحد دوست ایک مترجم ہے، جس نے اپنی دوکان کے سامنے ان گنت زبانوں کے ترجمہ کی سہولت نامی تختیاں لٹکا رکھی ہیں۔ ایک خیالی چوک ہونے کے باعث میں اس میں کوئی دھماکہ نہیں ہونے دوں گا اور جس دن بھکاری مرے گا، اس کی قمیض سے اسی مہینے کا ریڈرز ڈائجسٹ برآمد ہوگا جسے اس کا واحد مترجم دوست اپنے پاس رکھ لے گا!

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply