ایک درخت بالکل نظر کے سامنے ہے۔ عرصہ قریب میں اس پہ ناشپاتیوں کا ڈھیر ہو گا۔ آخری قرب میں اس میں توجہ کھینچنے کا رجحان بہت کم تھا کیونکہ کشش، جاذبیت اور دلکشی (attraction) اب سامنے آئی ہے۔ لمحہ موجود میں یہ کالی سیاہ شاخیں پتوں پھولوں اور سفیدی سے بھرپور ہیں جو گزشتہ کل بغیر رنگوں کے محض ایک شاخسانہ تھیں!
یہ عین بدلتے فطری مظاہر (natural colors) ہیں اور یہ تبدیلیاں انتہائی ناگزیر بھی ہیں۔ انہیں ہی گلہائے رنگارنگ (diversity) کہتے ہیں۔ فطرت بھیس بدل بدل کر سامنے آتی ہے (unpredictability) اور یہ کرشمہ ساز ہے۔ اس کے مزاج بدلتے جاتے ہیں (mood swings) لیکن یہ پھر بھی مزاج پرسی کی ہی حقدار ہے چونکہ قدرتی جائے پناہیں (natural settings) یا فطرت اپنے طور طریقے اور بندوبست رکھتی ہے اور سلیقہ شعار بناتی ہے۔
فطرت سے علیک سلیک کا نتیجہ بہت معقول ہے۔ تغیر کے نتیجے میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور یہی اختلاف حسن کو جنم دیتا ہے۔ فطرت کے اصول و ضوابط بہت حد تک غالباً طے شدہ ہیں لیکن بیش بہا رنگوں سے مزین فطرت دھونس ٹھونس سے بھی بری الذمہ ہے۔ جو بھی کوئی فطرت سے مکالمہ کرتا ہے اسے چناؤ کی آزادی ملنا خودکار (automatic) ہے۔ فرد فی ذاتہ رنگوں کا جائزہ (analysis) لینے کے بعد قدرت کی آغوش سے لپکنے یا پلنگ میں جھولے جھولنے میں آزاد ہے۔ چونکہ جسم خود بھی فطرت ہی کا ایک پہلو ہے تو اسے دیگر فطری جواہرات اور اثاثوں سے ممیز بنانے یا میل کھانے (compatibility) میں انتہائی دقت پیش نہیں آتی۔ یوں فطری مظاہر شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کر لیتے ہیں۔ بنیادی طور پہ یہ آپسی معاھدے کی کہانی ہے اور معاھدے سے دستبرداری غیر معقول اور غیر مناسب معلوم ہوتی ہے اور یوں بدانتظامی کا خدشہ بھی بڑھ سکتا ہے لہذا فطرت سے دوستانہ مراسم (friendly relationship) بہت ضروری ہے البتہ جیسے دوستوں میں اونچ نیچ ہی دوستی اور بندھن بنانے اور بہتر بنانے کا ذریعہ ہے تو فطرت بھی ایسی کمیوں کوتاہیوں کو بخوشی قبول کر لیتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں