لمحہ ء فکریہ/گُل رحمٰن

میں دن دیہاڑے ہی چوبارے پر جا بیٹھتی۔ ہر گزرتے ہوئے راہی کو دیکھنا میری عادت بھی تھی اور شوق بھی۔ کوٹھے کا دروازہ کچھ فرلانگ پر ہی تھا اور راستہ تنگ سی سیڑھی سے اُتر کر مکان کے مرکزی حصّے میں اُترتا تھا۔ تڑکے کا سورج اور میرا آمنا سامنا ہمیشہ اُسی دیوار کے پاس ہوتا۔ گھر میں شاید بہت گُھٹن کے باعث میں جہاں ہَوا خوری کی متمنی تھی وہیں رُوح  پرور مناظر دیکھنا میری کمزوری بھی تھی ۔ مختلف رنگ و نسل کے چہرے ، گہما گہمی، نفسا نفسی ، بھاگ دوڑ دیکھ کر زندگی کا احساس ہوتا تھا۔لیکن صبح میں یہ عالم کم ہی دیکھنا نصیب ہوتا۔

ایک دن موسم کچھ زیادہ ہی خوش گوار تھا ۔ نہ زیادہ گرمی نہ سردی ،صحیح کہتے ہیں جب اندر کا موسم بھلا لگے تو پھر باہر کے موسم کو کون پوچھے۔ میں اب چھت پر حسبِ  عادت پہنچ چکی تھی۔ یہاں ذکر کرتی چلوں میری اس جلد جاگنے کی عادت کا “ کریڈٹ” میں اُس لاؤڈ سپیکر کو دیتی تھی جو منہ اندھیرے لمبی تان کے سونے والوں کو بیداری کا پیغام سُنانے کے لیے بنا تھا۔ ہماری چھت سے مسجد صرف چند گز کے فاصلے پر تھی۔

ہر صبح منہ اندھیرے اعلان خاص کچھ یوں ہوتا۔۔
اہم ہم ہم۔۔شاں ں ں ں۔۔۔ہیلو ہیلو۔۔۔غرض یہ کہ ہر قسم کا شور ہونے کے بعد ایک با آواز بلند تلاوت کا سلسلہ شروع ہوتا اور ساتھ ہی آذان کی آواز بھی چار سُو   گونج جاتی۔اور پھر یکے بعد دیگرے ہر سمت سے آذان کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کہیں آواز کانوں کو چیرتی اور کبھی بہت دور سے سنائی دیتی ۔ اسی شورش سے محظوظ ہوتے ہوئے  میں بھیڑ کا انتظار کرنے لگتی ۔ یقیناً یہ جاننے کے لیے کہ موذن کتنوں کو جگانے میں کامیاب ہُوا۔لیکن اکثر قمقموں اور روشنیوں میں جگمگاتی ہوئی گلیوں میں انتظار کے باوجود  محلے کے کتوں ، بلیوں اور کچھ لاٹھیوں کی آوازوں کے علاوہ کچھ سنائی  نہ دیتا۔

ہائے۔۔۔۔ چند گھنٹے پہلے ہی پُر رونق گلیوں کو یکا یک کیا سانپ سونگھ جاتا تھا ؟

بس یہی خیال آتا بڑے میاں کیوں اتنی محنت کرتے ہیں ۔ جن کے نصیب سوئے ہُوں ان کو جگانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مغرب میں رہائش پذیر ہوئے اب بیس برس ہو گئے !
آنکھ اب بھی اُس خوف سے روز کُھل جاتی ہے کہ کوئی مجھے اُٹھا رہا ہے ۔ ہاں لیکن اب نہ وہ لاؤڈ سپیکر کا شور ہے ، نہ گلی میں لڑتے کُتے ، نہ جاگتے رہو کا ورد اور نہ ہی موذن !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply