مقبولیت کافی نہیں ۔۔عبدالرؤف حافظ

عمران خان کو اللہ نے بے پناہ مقبولیت سے نوازا مگر  وہ سسٹم  میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرسکے، باقی سابق حکمران بھی ایسے ہی ہیں، سسٹم کی تبدیلی کے لیے ہمارے ہاں کوئی لائحہ عمل یا آپشن زیر غور ہے؟ کیا اسی سسٹم سے کسی کو خیر کو توقع ہے؟ اس نظام میں اگر دنیا کے بہترین ایماندار ایڈمنسٹریٹر کو بٹھا دیا جائے تو بھی نواز شریف یا عمران خان ہی ثابت ہوں گے، لہذا نان ایشوز پر توانائیاں صَرف کرنے کی بجائے حقیقی کام پر توجہ دیں، ماڈرن دور میں ریاست خاص طور پر ترقی پذیر ملک کتنی  مجبوریوں میں جکڑا ہوتا ہے، یہ سوچیں ۔اَن دیکھی زنجیروں سے کیسے بندھا ہوتا ہے اسکے لیے کبھی علم سیاسیات کا مطالعہ کریں اپنا اور عوام کا حقیقی شعور بڑھائیں۔ سچ بولیں سچ جانیں اور حقیقت پسند ہوکر زندگی گزاریں۔ جذباتی پن اور آئیڈیل ازم سے صرف معاشرے کا ہی نہیں  بلکہ  اپنا ذاتی نقصان بھی  یقینی ہے۔ جو کچھ جتنا بس میں ہے اسے موثر انداز میں کریں جو نہیں ہے اسے چھوڑدیں، منفی رویوں اور منفی رد ِعمل سے بچیں۔

ہم خود کتنے باشعور ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ممکنہ تمام آپشنز اور پارٹیز کے منشور کو پڑھا ہے یا نہیں، یا صرف جلسے کی تقریروں اور وعدوں کی بنیاد پر ہم لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں، جن ترجیحات کی بنیاد پر ہم پارٹی کو فالو کر رہے ہیں کیا اس پارٹی کے منشور یا مینی فیسٹو کا وہ حصہ ہے بھی کہ نہیں؟ یاد رکھیں پارٹیز میں جلسے کی تقریروں اور الیکٹیبلز کے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، پارٹی کے ہاں صرف اپنے منشور اور مینی فیسٹو کی اہمیت ہوتی ہے جبکہ عام ووٹر جلسے کی تقریروں اور جھوٹی طفل تسلیوں میں اپنی زندگی گھول دیتا ہے، جس کا نتیجہ فرسٹریشن اور ناامیدی کے  سِوا کچھ نہیں ہوتا۔

الیکشن سے قبل سمجھ دار واٹر ہونے کے  ناطے اپنے الیکٹیبلز اور امیدواروں سے مطالبہ کریں کہ ہمیں اپنے منشور پر پریزینٹیشن دیں، اس پر سوال کرنے دیں، ہماری ترجیحات کو اپنے ایجنڈے  میں شامل کریں اور اپروو ڈ ایجنڈہ اپنی ویب سائٹ پر لگائیں، پھر ہم سے ووٹ کا مطالبہ کریں، اگر آپ پارٹی ورکر ہیں پارٹی کے لیے اہم ہیں تو پارٹی کے اندر تبدیلی کے لیے اتنے ہی اہم ہیں، جلسے اور کارنر میٹنگ میں جان کھپانے سے پہلے پارٹی لیڈرز سے شفاف معلومات کا تبادلہ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تبدیلی اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر دو طرفہ ردعمل کا نتیجہ ہے، باشعور عوام کے نمائندے باشعور ہوں گے، بے شعور اور حقوق سے غافل لوگوں کے نمائندگان مفاد پرست ہی ہوں گے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply