ظلم

قصہ کچھ یوں ہے کہ ہماری فیکٹری میں ایک ورکر سندھ کے کسی دیہی علاقے سے روزی کی تلاش میں آیا تھا ۔ زندگی میں کبھی روزہ رکھا تھا، نہ ہی تراویح پڑھی تھی۔ کچھ ہی دن بعد رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا اور دیگر ورکر زجو کہ اس کے ساتھ ہی ہاسٹل میں مقیم تھے اسے رات تین بجے اٹھا کر کھانا کھلانے لگے، یہ افتاد اس کے لیئے نئی تھی، لیکن وہ رلی اوڑھ کر کچھ دیر بیٹھا رہا، پھر کچھ سحری کھالی، اس کے بعد نوری آباد کی گرمی میں پورا دن مزدوری کی اور افطار کے بعد جبکہ ابھی خمار گندم کی کیفیت میں تھا کہ وہ ظالم ورکرز پھر آموجود ہوئے اور تراویح کے لیئے لے گئے، اور تین بجے پھر سحری کے لیئے اٹھا دیا۔ورکرز نے پانچ روزے تو گزار لیئے لیکن چھٹے روزے وہ تاریخی جملہ کہا جو اس کے کام چھوڑ کے جانے کے بعد بھی باقی ماندہ ورکرز میں سینہ بہ سینہ منتقل ہو رہا ہےاور آج بھی روز اول کی طرح قہقہوں کا باعث ہے ۔ کہنے لگا۔۔۔۔ “سائیں میرا دادا بھی گوٹھ سے کام کرنے باہر گیا تھا، اسے بھی دن کو روزہ اور رات کو تراویح پڑھائی تھی لوگوں نے، سائیں آخر بیسویں روزے وہ فوت ہو گیا، میں یہ ظلم اپنے ساتھ نہیں ہونے دوں گا”۔
دراصل یہ قصہ مجھے اس لیئے یاد آیا ہے کے آج تیسرا روزہ ہے اور” کے الیکٹرک” کی مہربانی سے میں ایک ساتھ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں سو پا رہا ہوں ۔ پہلی، دوسری اور اب تیسری سحری بھی کینڈل لائٹ میں ہی ہوئی ہے، رات دو بجے لائٹ جاتی ہے پونے تین بجے یو پی ایس جواب دے دیتا ہے اور صبح چھے بجے میری وین آنے تک تو لائٹ کا نام و نشا ن نہیں ہوتا ۔ واپسی چار بجے ہوتی ہے اس بار یو پی ایس پانچ بج کر تیس منٹ پر بند ہوتا ہے اور افطار کے لیئے میں فتح باغ کے سامنے دری پر موجود ہوتا ہوں کہ ٹھنڈی ہوا میں مفت کا تربوز کھانے کا مزہ ہی اور ہے ۔اب حالت کچھ ایسی ہے کے نیند دفتر میں پوری ہوتی ہے اور نیند کے اوقات میں راقم ایک پرانا رجسٹر لیئے پنکھا جھل رہا ہوتا ہے۔سامنے والدہ محترمہ بیٹھی ہوتی ہیں جو کہ مسکرا کر بتا رہی ہوتی ہیں کہ کیسے اندھیرے میں انہوں نے املی کی چٹنی، بھگار والے چھولے، بند گوبھی اور چکن کے سموسے تیار کیئے ، ویسے ان کو پلاٹینم کا تمغہ ملنا چاہئے کے وہ اس حبس میں ناصرف تمام روایتی پکوان تیار کر رہی ہیں بلکہ کھا بھی لیتی ہیں ۔آخری بات یہ ہے کے بچوں، پوتوں کا جھنجٹ تو ہم نے پالا نہیں لیکن لگتا ہے کہ بھتیجا، بھتیجی کبھی یہ داستان سنائیں گے کہ ہمارے ایک تایا ابو تھے ۔۔۔۔۔۔۔اور یہ ظلم ہم اپنے ساتھ نہیں ہونے دینگے!

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply