• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سندھ طاس معاہدہ اور صوبوں کے مابین آبی وسائل کی تقسیم 1991 کا معاہدہ، تاریخی حقائق۔۔۔گل ساج

سندھ طاس معاہدہ اور صوبوں کے مابین آبی وسائل کی تقسیم 1991 کا معاہدہ، تاریخی حقائق۔۔۔گل ساج

تقسیم کے بعد بھارت نے آبی معاملات میں پاکستان کو زِچ کرنا شروع کر دیا
اس دوران بے شمار مذاکرات ہوئے جن میں انڈیا تین مشرقی دریاؤں راوی ستلج اور بیاس کو انڈیا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا رہا پاکستان اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لیجانا چاہتا تھا مگر ورلڈ بینک کے دباو پہ ایسا نہ ہو سکا بعدازاں ورلڈ بینک کے تعاون سے دونوں ممالک کے مابین سندھ طاس معاہدہ ہوا جس میں چند یورپی ممالک بھی ضامن بنے.
سندھ طاس معاہدہ میں انڈس بیسن کے پانی کی مکمل تقسیم اور فنڈز کے حوالے سے بات کی گئی ۔
بعد ازاں اِنڈس واٹر ٹریٹی میں تینوں مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج کو بھارت کے حوالے کرنے کے علاوہ تین مغربی دریاوں جہلم چناب اور سندھ پر کشمیر کے کچھ یوٹیلیٹیز کے حوالے سے پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا البتہ بہتے پانیوں پر بھارت کو ہائیڈل پاور پراجیکٹ بنانے کی اجازت دی گئی
اس معاہدے کے تحت انڈیا اور ورلڈ بینک سے پاکستان کو کچھ رقم بھی ملی وہ رقم راوی بیاس اور ستلج سے سیراب ہونے والے علاقوں کی بحالی، پانی کی ضروریات پوری کرنے کی مد میں تھی
ورلڈ بینک کے پلان کے مطابق دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم اور جہلم پر منگلا ڈیم تعمیر کئے گئے تا کہ اس علاقہ کی خوشحالی متاثر نہ ہو
معاہدہ کے مطابق دریائے جہلم منگلا کے مقام پر 4.5 ایم اے ایف اور دریائے سندھ تربیلا کے مطابق 4.2 ایم اے ایف ڈیم منظور کئے گئے
راوی ستلج اور بیاس کو انڈیا کے حوالے کر دینے سے ان دریاوں سے متعلقہ علاقوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لئیے 8.95ایم اے ایف پانی کے ذخائر درکار تھے جو فی الحال تو ان ڈیمز سے میسر تھا مگر آنے والے وقت میں مٹی ریت بھر جانے کی وجہ سے ان ڈیمز کی استعداد کم ہوجانا تھی ان مسائل کو دیکھتے ہوئے ورلڈ بینک نے مزید 6 اے ایم ایف کے ڈیم کی فنڈنگ اور طے ہوا کہ اس فاضل پانی سے جو آمدنی ہو اس سے پاکستان اپنے سیٹ اپ کو بحال رکھے گا نیز تربیلا منگلا ڈیمز کی مرمت کے اخراجات بھی انڈیا کو برداشت کرنے کا پابند کیا گیا(مگر اب یہ سب خواب ہے سر دست پاکستان کو سندھ طاس معاہدے پہ عمل درآمد کرانے پہ زور دینا چاہئیے)
ورلڈ بینک رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دریائے سندھ کے ذریعے حویلی، اسلام اور پنجند اریگیشن سسٹم چلائے جائینگے جبکہ مشرقی دریاوں کے دیگر علاقے جہلم وغیرہ کے پانی سے سیراب ہوں گے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے بعد راوی، بیاس اور ستلج کی وادی کو سیراب کرنے کی ذمہ داری وفاق پاکستان کی ہے وفاق نے ورلڈ بینک اور بھارت سے تینوں مشرقی دریاوں کے عیوض اسی مقصد کے لئیے بھاری رقم وصول کی
وفاق نے ورلڈ بینک کے ذریعے 6 اے ایم ایف حاصل ہونیوالے پانی سے سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان کی آباد کاری بلا معاوضہ مقصود تھی
ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر تحریر کر دیا تھا کہ منگلا اور تربیلا سے حاصل ہونیوالے فوائد 1990 تک ہونگے اسکے بعد کالا باغ ڈیم اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئیے تعمیر کرنا ضروری تھا
بہر حال یہ وفاق کی ذمہ داری تھی کہ مشرقی دریاوں کی وادی کی ماحولیات کی بحالی اور دیگر زرعی ضروریات کا خیال رکھتا مگر افسوس وفاقی حکومت نے اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کی
بلاشبہ سندھ واٹر ٹریٹی مثالی معاہدہ نہ تھا اس سے پاکستان مغربی دریاوں تک محدود ہو گیا اور تین دریا انڈیا کو بیچ دئیے گئے مگر اسکے بعد بھی بہتر منصوبہ بندی سے آبی مسائل پہ قابو پایا جا سکتا تھا
آبی ماہرین نے پاکستان کی شادابی اور معیشت کو برقرار رکھنے کےلئیے کوئی منصوبہ بندی نہ کر کے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا جسے آنے والی نسلیں بھگتیں گی آبی حیات کا مکمل خاتمہ ہو گیاساڑھے بارہ لاکھ ایکڑ سے زائد ایریا کی مکمل معاشی تباہی کے علاوہ تقریباً 25 لاکھ ایکڑ اراضی نہروں کی ٹیل تک پانی پہنچنے کی وجہ سسکتی معیشت کا روپ دھار گئی منگلا اور تربیلا جھیل کی استعداد ختم ہو رہی ہے معاہدہ کی رو سے مشرقی دریاوں کی وادی کی سیرابی کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی مگر اب یہی راوی اور ستلج کی وادی نوحہ کناں ہے بوند بوند کو ترس رہی ہے
1991 میں صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا فارمولا طے پایا اسی معاہدہ کے شق 6 کے تحت تمام ممکنہ ڈیم منظور کر لئے گئے تھےجن میں کالا باغ ڈیم سر فہرست تھا مزید براں 1998 میں تمام صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فارمولہ طے کر دیا گیا اس بنا پہ چاروں صوبے نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر پہ رضامند ہو گئے۔
صوبے خاص طور پہ سندھ اسی معاہدہ کے تحت حاصل ہونیوالے 11.62 اے ایم ایف پانی کے حصول کا مطالبہ تو کرتا ہے مگر اسی معاہدے میں طےشدہ بات سے انکاری ہے کہ یہ پانی کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے دستیاب ہوگا جبکہ پنجاب کا موقف ہے کہ بوجوہ
91 19کے معاہدے پہ عمل پیرا ہونا ممکن نہیں کہ اس مقدار میں پانی دستیاب ہی نہیں تو سندھ کو مطلوبہ پانی کہاں سے دے یہ ممکن تبھی ہے جب کالا باغ ڈیم اور مزید آبی ذخائر کی تعمیر ہو۔ آبی ذخائر کی تعمیر کو اولین ترجیحات میں شامل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply