• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا۔۔۔نذر حافی

اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا۔۔۔نذر حافی

ظالموں کے خلاف آواز اٹھانا، یہ بھی ایک موسمی مسئلہ بن گیا ہے، ظالموں کے خلاف کوئی صرف یوم القدس کے موسم میں بولتا ہے، کوئی فقط محرم الحرام میں جوش میں آتا ہے اور کسی کی جب خود پٹائی ہوتی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ ظالموں کے خلاف بھی بولنا چاہیے۔ آج کل جس کو دیکھیں وہی مظلوم بنا ہوا ہے، کوئی مری سیر کے لئے جاتا ہے تو اس کی وہاں درگت بنائی جاتی ہے، کسی کو ائیرپورٹ پر پکڑ کر پھینٹی لگائی جاتی ہے، کسی کو راستے سے اغوا کر لیا جاتا ہے، لیکن بولتا ہر کوئی نہیں، بولتا صرف وہ ہے جسے مار پڑتی ہے، ورنہ اکثر ہوں ہاں پر ہی گزارہ کیا جاتا ہے اور ویسے بھی ہمارے ہاں سیاسی مسائل اتنے اہم ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے لوگوں کے جان و مال اور امن و سکون کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ کسی بھی شخص کی پٹائی ہونے پر اگر شور پڑ جائے تو پٹائی کرنے والے سب مل کر باجماعت معافی مانگنے کا اعلان کرتے ہیں اور پھر اگلے روز وہی کچھ دوبارہ ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ مری کے مسئلے پر ہوا، سب نے باجماعت عوام سے معافی مانگی، ٹوریسٹ حضرات کو پھول پیش کئے اور ابھی تک ایجنٹ مافیا اور گراں فروشی اسی طرح ہے۔ اپ پٹائی کرنے کا دائرہ کار عام لوگوں سے بڑھتا ہوا صحافیوں تک پہنچ گیا ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی بہانے، کہیں نہ کہیں پر، کسی نہ کسی صحافی کی پٹائی کی جاتی ہے اور اگر صحافی زیادہ ہی نڈر ہو تو ذیشان اشرف بٹ کی طرح اسے موت کی منہ میں بھی دھکیل دیا جاتا ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح انسانی زندگی کے لئے آکسیجن ضروری ہے، اسی طرح انسانی سماج کی زندگی کے لئے آزادی رائے اہم ہے۔ اگر معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوگی تو معاشرتی اقدار مٹ جائیں گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آزادی اظہار کو سمجھا ہی نہیں گیا، بعض لوگ تو اس حد تک جری ہیں کہ وہ لوگوں کے پرسنل اور ذاتی معاملات کی بھی ویڈیوز بنا کر فیس بک اور وٹس اپ پر شئیر کر دیتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوتا اور بعض افراد کسی معاملے پر کسی صحافی کو بھی بولنے یا رپورٹنگ نہیں کرنے دیتے۔ فریڈم نیٹ ورک کے مطابق دسمبر 2017ء میں الیکٹرانک میڈیا کے آٹھ صحافیوں پر حملہ کرکے انہیں زخمی کیا گیا، ان سب کا تعلق سندھ سے تھا۔ مختلف چینل کے چار کیمرا مینوں کو سکھر میں 9 دسمبر کو پولیس نے تشدد کا نشانہ اس وقت بنایا جب وہ ایک پولیس اہلکار کو شراب پیتے ہوئے ریکارڈنگ کر رہے تھے۔ ایک علاقائی صحافی نے کراچی پریس کلب کے سربراہ کو اپنا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے کہا: ”کیمرا مین پولیس والے کی ویڈیو بنا رہا تھا، جب اس پر باقی پولیس والوں نے ڈنڈوں سے دھاوا بول دیا۔” زخمی ہونے والوں میں جیو نیوز کے اسامہ طلعت، جنگ اخبار کے فوٹوگرافر سلمان انصاری اور قذافی شاہ شامل تھے۔[1]

24 دسمبر 2017ء کو ایکسپریس نیوز کے ارشد بیگ کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جب کراچی کے سٹی کورٹ سے فرار ہونے والے ملزم کی وہ فوٹیج بنا رہا تھا۔ مقامی وکلاء کا ماننا ہے کہ ارشد سے اس کا موبائل چھین لیا گیا اور اسے بار کے کمرے میں ایک گھنٹے کے لئے بند کر دیا گیا۔ ارشد کو اس وقت رہا کیا گیا جب باقی صحافیوں نے مداخلت کی۔ 29 دسمبر 2017ء کو جاگ ٹی وی کے رپورٹر پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اقتصادی معاملات کے مشیر مفتی اسمعیل کی پریس کانفرنس کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔ کارکنان نے چینل پر حملہ کرنے کی کوشش کی، لیکن پولیس کی آمد کے بعد معاملہ حل کر دیا گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ایم پی اے انور رضا نے صحافیوں پر 4 دسمبر کے روز اس وقت تشدد کیا، جب وہ کراچی میں ناجائز شادی ہال کے تباہ ہونے کی ویڈیو بنا رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں انور رضا پر کے ڈی اے کے افسران سمیت دنیا نیوز نے ایف آی آر درج کروا دیں۔ 22 دسمبر کو ملتان میں جیو نیوز کے کرائم رپورٹر عمران چودھری کے مکان کے باہر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔ لاہور پریس کلب کے سربراہ کو فون کرکے اطلاع کرنے پر عمران نے بتایا کہ اس کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی گروہ کی طرف سے کوئی دھمکی موصول ہوئی تھی۔

23 دسمبر کو ایکسپریس نیوز کے نعیم اصغر کو حزب التحریر تنظیم کی طرف سے دھمکی آمیز خط موصول ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں موجود نیشنل پریس کلب سیفٹی ہب کے سربراہ کو اطلاع دیتے ہوئے نعیم نے بتایا کہ دھمکی ملنے کے بعد ہی انہوں نے پولیس سے مدد مانگ لی تھی۔ پولیس کے اصرار کے باوجود نعیم نے ایف آئی آر درج نہیں کروائی۔ یاد رہے کہ حزب التحریر ایک بین الاقوامی اسلامی تنظیم ہے، جو پاکستان کو ایک اسلامی خلافت بنانا چاہتی ہے۔ ستمبر 2017ء میں ایک سینیئر صحافی مطیع اللہ جان پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر جاتے ہوئے اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو میں حملہ کیا گیا۔ صحافیوں پر حملوں کے سلسلے میں اہم پہلو یہ ہے کہ ان پر صرف اس وقت حملہ کیا جاتا ہے، جب وہ یا تو اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوتے ہیں یا پھر اپنے گھر میں موجود ہوتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ ہراساں کرنے کو یقینی بنایا جا سکے۔ حملوں میں تقریباً ایک جیسا انداز اختیار کیا جاتا ہے اور حملے کے لئے ایک جیسے لوگ بھیجے جاتے ہیں۔ ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق یکم مئی 2017ء سے یکم اپریل 2018ء کے واقعات میں سب سے زیادہ ہدف بننے والا میڈیم ٹی وی رہا، جس کیساتھ منسلک صحافیوں کیخلاف 85 واقعات ریکارڈ ہوئے، صحافیوں کیلئے دیگر خطرناک علاقوں میں دوسرے نمبر پر پنجاب رہا، جہاں سترہ فیصد حملے، سندھ میں سولہ فیصد، بلوچستان میں چودہ فیصد اور خیبر پختونخوا میں دس فیصد، فاٹا میں آٹھ فیصد ریکارڈ کئے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح جون 2018ء میں ہی پاکستان میں تین مختلف مقامات پر تین مختلف واقعات پیش آئے، جن میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور صحافی گل بخاری اپنے دفتر جاتے ہوئے راستے سے اغوا کر لی گئیں، تاہم بعد ازاں انہیں زندہ چھوڑ دیا گیا، دوسری طرف جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کے گھر کے آس پاس عسکریت پسند جمع ہوتے رہے، یعنی وہ گھر کے اندر ہی محبوس کر دیئے گئے اور ادھر پنجاب میں صحافی اسد کھرل کو “نامعلوم افراد” نے لاہور ائیر پورٹ پر تشدد کا نشانہ بناکر چلے گئے۔ مندرجہ بالا حقائق میڈیا میں جابجا موجود ہیں اور مختلف سائٹس پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ملک میں گھٹن کا یہ ماحول کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں۔ میڈیا ہاوسز کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ صحافیوں کے مسائل کو کوریج دیں اور ان پر ہونے والے حملوں کے بارے میں غیر جانبدارانہ تحقیات کرکے قانونی اداروں کی مدد کریں۔ اگر میڈیا کی طرف سے ہی اس ظلم ستم پر چپ سادھی جائے گی تو یہ سلسلہ آگے چل کر ایک بند گلی کی صورت اختیار کرسکتا ہے اور فرقہ وارانہ و علاقائی دہشت گردی کی طرح صحافیوں کے خلاف دہشت گردانہ حملے بھی روز مرہ کا معمول بن سکتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے اگر پاکستان میں صحافت کا شعبہ مجروح ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر انسانی حقوق اور جمہوری و سرکاری اداروں پر پڑے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply