خالی گڑیا، تیرتی روحیں۔۔۔۔مہناز اختر

نجانے کب سے میرے ذہن میں یہ خیال گھر بناۓ بیٹھا تھا، شاید تب سے جب میں نے زندگی میں پہلی بار آئینہ دیکھا تھا یا تب سے جب پہلی بار کسی گڑیا کو قریب سے دیکھا ہوگا۔ ایک سال کی عمر سے، دوسال کی یا ہمیشہ سے۔ یہ “ہمیشہ” بھی میرے لیے ہمیشہ اک پہیلی بنا رہا۔

“ہمیشہ” کیا ہے؟

کوئی نقطہِ آغاز؟

وہ لمحہ جس وقت میں پیدا ہوئی تھی یا وہ لمحہ جب مجھ نطفہِ حیراں نے امی کی کوکھ میں قرار پایا ہوگا؟

یا پھر یہ ازل ہے، ازلی ہے ابدی ہے؟

خیر میں اپنے خیال کے بارے میں بتا رہی تھی جو آج بھی میری فکر کے ساتھ پیوست ہے۔ بچپن میں آئینہ دیکھتے ہوۓ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جو وجود آئینے کے اندر کھڑا ہے وہ میں نہیں ہوں بلکہ یہ ایک خالی ڈبے کی طرح کھوکھلا وجود ہے۔ اس کے اندر خلاء ہے۔ میں اس کے اندر سے جھانک رہی ہوں۔ یہی خیال مجھے اوروں سے بات کرتے ہوۓ بھی آتا تھا اور میں لاشعوری طور پر مبہوت ہوکر ان کی آنکھوں میں جھانک کر بات کرنے کی عادی ہوگئی تھی۔ چونکہ یہ عادت لڑکیوں میں معیوب سمجھی جاتی ہے تو مجھے بڑے اکثر ٹوک دیا کرتے تھے۔ سچ کہوں تو آج بھی مجھ میں بچپن کے مقابلے میں انتہائی شدید خواہش موجود ہے کہ میں اس خالی ڈبے میں موجود اصلی انسان کو دیکھ سکوں۔

میری دنیا تجسس اور سوالوں سے گھری ہوئی تھی۔ میں ہر چیز کو حیران ہوکر دیکھتی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ ہم ہوا کی مانند جسم کے اندر باہر غوطے لگاتے رہتے ہیں۔ ہم ایک آزاد مخلوق ہیں جسے بدن کے پنجرے میں قید کردیا گیا ہے۔ ہم سانس کے ساتھ ساتھ اس خالی ڈبے سے اندر اور باہر کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ یہ آنکھیں گویا آنکھیں نہیں بلکہ ونڈ اسکرین ہیں۔ میں جیسے جیسے بڑی ہوتی جارہی تھی میرا خیال بھی ارتقائی مراحل طے کرتا جا رہا تھا۔ وقت، معلومات اور مشاہدہ اس خیال کی جڑوں کو مضبوط کرتے رہے۔

کیا تین چار سال کی بچی کو روح، آگوان، تناسخ، حلول یا “بدن روح کا لباس ہے” جیسے مبہم اور گنجلک فلسفوں کے راز معلوم ہونگے ؟

نہیں! ہرگز نہیں!

میں خود سے پوچھتی تھی کہ یاد کرو سب سے پہلے یہ خیال تمہارے ذہن میں کب آیا؟

کب تم نے خود کو پہلی مرتبہ خالی ڈبہ محسوس کیا تھا؟

کب تم نے جسم کے خلاء کو پہلی بار محسوس کیا تھا؟

کب تم نے پہلی بار خود کو آنکھوں کی ونڈ اسکرین سے باہر جھانکتا ہوا محسوس کیا تھا؟

میں ماضی میں سفر کررہی ہوں ایک جانا پہچانا سا منظر ہے۔ میں یہاں لگ بھگ چار سال کی ہوں۔ میرے پاس بہت ساری گڑیائیں تھیں، ربر کی گڑیا، پلاسٹک کی گڑیا، مٹی کی گڑیا اور کپڑے کی گڑیا۔ امی دوپہر کے وقت میرے ساتھ گڑیا گڑیا کھیلتیں تھیں۔ وہ میرے لیۓ کپڑے کی نت نئی گڑیا بناتیں یا پرانی گڑیاؤں کے کپڑے سیتیں۔ مجھے گڑیاؤں سے عشق تھا۔ ایک گڑیا جو ماموں نے سعودیہ سے کچھ روز قبل ہی بجھوائی تھی وہ سب سے الگ تھی۔ وہ دوسری گڑیاؤں کی طرح بے جان بت نہ تھی، پٹ پٹ پلکیں جھپکاتی تھی اور مسکرا مسکرا کر میری طرف دیکھتی رہتی تھی۔ اس کے ہاتھ پاؤں میری طرح تھے۔ میں اسکی کنچوں جیسی نیلی آنکھوں کو بار بار قریب سے دیکھتی رہتی تھی مجھے اسکی آنکھوں کے اندر میری ہم عمر ایک چھوٹی سی لڑکی نظر آتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منظر تبدیل ہوگیا ہے یہاں میں اور میرا چھوٹا بھائی اپنے اپنے کھلونوں سے کھیل رہے ہیں۔ نئی گڑیا سے میری اجنبیت ختم ہونے لگی تھی۔ میں اسے کھانا پکانا سکھارہی تھی۔ اچانک میرا چھوٹا بھائی گڑیا کو بالوں سے پکڑ کر پٹخنے لگا۔ میں نے گڑیا کو بچانے کی پوری کوشش کی لیکن اس نے اتنی بے دردی سے کھینچا تانی کی کہ گڑیا کا سر دھڑ سے الگ ہوکر میرے قدموں میں گر پڑا۔ میں نے پہلی بار یوں کسی سر کو تن سے جدا ہوتے دیکھا تھا۔ سر اور دھڑ دونوں الگ پڑے تھے۔ دونوں اندر سے خالی تھے۔ میرے حلق میں گولہ سا اٹک چکا تھا۔ میں بالکل ساکت کھڑی ہوں۔ گڑیا کے درد کو اپنی گردن کے اطراف محسوس کررہی ہوں۔ میرا چہرہ سفید ہوگیا ہے، آنکھیں پھٹی پھٹی اور سانس رکی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ میرا بھائی سہم کر پیچھے ہٹ گیا۔ اسی اثناء میں امی نے میرا نام پکارتے ہوۓ میری پیٹھ پر زور سے تھپکی دی تو سانسیں بحال ہوئیں۔ امی نے مجھے گود میں بٹھایا اور چمکارتے ہوۓ بولیں، “ارے! کچھ نہیں ہوا گڑیا کو، میں ابھی جوڑ دیتی ہوں” یہ کہہ کر امی نے گڑیا کا سر اسکے دھڑ سے دوبارہ جوڑ دیا اور مجھے دکھا کر کہنے لگیں “دیکھو ٹھیک ہوگئی” اور پھر دو تین بار اس کے سر کو الگ کر کے مجھے دکھایا۔ توڑا پھر جوڑا ، گڑیا واقعی مسکرا رہی تھی ، ٹک ٹک میری طرف دیکھ رہی تھی۔ یہ میری یاداشت کا پہلا لمحہ تھا جب میں نے خود کو حیرانی کے سمندر میں غرق پایا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس دن کے بعد سے مجھے یقین ہوگیا تھا کہ گڑیا کی آنکھوں سے جھانکنے والی چھوٹی لڑکی گڑیا کے اندر رہتی ہے کیونکہ یہ گڑیا اندر سے خالی تھی۔ وہ دن میرے لیے انکشاف کا دن تھا۔ ہم سب وہ نہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔ بدن صرف ایک خالی ڈبہ ہے جس کہ اندر ہم بستے ہیں۔ خالی ڈبہ بھی عجیب شے ہوتا ہے۔ جب تک بھرا رہے کام میں آتا ہے اور جب خالی ہوجاۓ تو ہم اسے پھینک کر دوسرا بھرا ہوا ڈبہ لے آتے ہیں۔ مجھے نانی اماں کے تمباکو کا نیلے رنگ کا ٹین کا ڈبہ بہت اچھا لگتا تھا۔ نانی اماں اس ڈبے کی بڑی حفاظت کیا کرتی تھیں تاکہ وہ ہماری پہنچ سے دور رہے۔ جب تک وہ ڈبہ بھرا ہوتا اسے چھونا تو دور قریب جانے کی اجازت تک نہ تھی لیکن جیسے ہی وہ خالی ہوجاتا نانی اماں بڑی لاپرواہی سے اسے پھینک کر دوسرا بھرا ہوا ڈبہ نکال لیتیں۔ ڈبے جب تک بھرے ہوۓ ہوں تب تک ہی اہم ہوتے ہیں۔ یوں میں نے بہت چھوٹی عمر میں ہی خالی ڈبوں اور تیرتی روحوں کے فلسفے کو سمجھ لیا تھا۔

Facebook Comments

مہ ناز اختر
ایک اچھی سامعہ و قاری اور نوآموز لکھاری۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply