تہذیبوں کا تصادم ۔۔۔! ماضی ، حال اور مستقبل

تہذیبوں کا تصادم ۔۔۔! ماضی ، حال اور مستقبل
قدیم فارس (ایران )کا مفکر اور مذہبی پیشوا زرتشت افغانستان کے مقام گنج میں پیدا ہوا ۔تیس برس کی عمر میں اہورا مزدا (اُرموز) یعنی خدائے واحد کے وجود کا اعلان کیا لیکن وطن میں کسی نے بات نہ سنی۔ تب مشرقی ایران کا رخ کیا اورخراسان میں کشمار کے مقام پر شاہ گستاسپ کے دربار میں حاضر ہوا۔ ملکہ اور وزیر کے دونوں بیٹے اس کے پیرو ہو گئے۔ بعد ازاں شہنشاہ نے بھی اس کا مذہب قبول کر لیا۔کوروش اعظم اور دارا اعظم نے زرتشتی مذہب کو تمام ملک میں حکماً رائج کیا۔
ایران کا پہلا مذہبی و سیاسی حریف یورپ تھا ۔ قیصرِ روم اور کسریٰ ایران کی جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ کبھی رومی غالب آجاتے تو کبھی فارسی اپنی ناکامیوں کا بدلہ لے لیتے ۔ یہ معرکہ آرائی صدیوں تک جاری رہی ۔ ان دونوں اقوام کا میدان جنگ موجودہ عرب ممالک تھے ۔ اس جنگ و جدل میں عربوں کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا کیونکہ اسلام کی آمد سے قبل ان دو عالمی طاقتوں کے سامنے عربوں کی مذہبی و سیاسی حیثیت صفر تھی ۔
ظہور اسلام کے وقت فارسی غالب آچکے تھے اور رومی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے تھے۔ رومیوں پر ایرانیوں کا غلبہ 615ء میں ہوا، جو تقریباً 6 سال قبل از ہجرت ہے۔ اس وقت قرآن اعلان کرتا ہے کہ “عنقریب رومی غالب آئیں گے ” تو مشرکین مکہ خوش ہوئے کہ یہ تو کسی صورت ممکن نہیں تو حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ شرط کا واقعہ پیش آتا ہے۔ مشرکین مکہ ایرانی مجوسیوں کے غلبے پر اس لئے بھی خوش تھے، کیونکہ مجوسی بھی توحید، وحی اور نبوت کے قائل نہ تھے، اس وجہ سے وہ مشرکین کے قریب المذہب سمجھے جاتے تھے۔ جبکہ رومی عیسائی وحی و رسالت کے ماننے والے اور مسلمانوں کے قریب المذہب تھے۔
فتح مکہ تک تمام قبائل عرب اسلامی پرچم تلے جمع ہوچکے تھے اور ایک نئی اسلامی تہذیب جنم لے چکی تھی ۔ اب اسلام کا مقابلہ دو مخالف تہذیبوں سے شروع ہوتا ہے ۔عربوں کا مقابلہ بیک وقت قیصر روم اور کسریٰ ایران سے تھا ۔ رومیوں کو اور نہ فارسیوں کو توقع تھی کہ عرب اتنی تیزی سے اُٹھیں گے اور ہمیں روند ڈالیں گے۔
جلد ہی مجوسیت کے پیروکار یعنی ایرانی مغلوب ۔انھوں نے اسلام قبول کرلیا اور دنیا کی مشرقی سُپر پاور عربوں کے ہاتھ میں آگئی۔ دوسری جانب رومی یعنی عیسائیوں کے ساتھ شدید ٹکراؤ ہوا ۔ جنگ ِ یرموک کی شکست نے عیسائیت کی کمر توڑ ڈالی اور صلیبی جنگوں تک رومی کسی میدان میں مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ صلیبی جنگوں میں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسائیت دنیا کو مکمل شکست سے دو چار کر دیا۔
اس سے قبل حضرت عثمان غنی کی شہادت کے واقعہ نے اسلامی تاریخ کا رُخ ہی بدل دیا اور اس کے بعد کے حالات و واقعات نے خلیج مزید گہری کر دی اور واقعہ کربلا کے بعد اسلامی دنیا عملاً دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔
سلطان محمد فاتح نے عیسائیت کے گڑھ قسطنطنیہ کو فتح کر کے عیسائیوں کو یورپ دھکیل دیا۔ ترکوں عثمانیوں نے ایک عرصے تک عیسائیوں کو طاقت پکڑنے نہیں دی۔ اب یورپ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ عربوں یا اسلام کے ماننے والوں کو میدان جنگ میں شکست دینا آسان نہیں ۔لہٰذا جنگی طریقہ کار تبدیل کیا جائے۔ پہلے انہوں نے آپسی لڑائیوں کا خاتمہ کیا پھر تجارت کو فروغ دینے کی غرض سے عربوں سے راہ رسم بڑھانا شروع کئےاور یہ کام چند دنوں میں نہیں ہوا اس کے لئے سالوں لگے۔
ریشہ دانیوں اور مسلم خاندانوں کے آپسی اختلاف کا بھرپور فائدہ اُٹھایا گیا۔ پہلے یورپ میں قائم آٹھ سو سالہ اسلامی ریاست اندلس(اسپن) کا خاتمہ کیا گیا۔ پھر ہندوستان میں قائم ساڑھے گیارہ سو سالہ اسلامی ہند فتح کیا گیا اور آخر میں ترک خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے لئے جنگ عظیم اوّل کا میدان سجا دیا گیا اور 1922 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا۔
ان سارے حالات و واقعات میں تاج برطانیہ قائدانہ کردار ادا کررہا تھا اور اس وقت تک میدان جنگ نہیں سجایا گیا جب تک یہ یقین نہ کر لیا گیا کہ اب عربوں میں یا عربوں کا دین اسلام کے ماننے والوں میں تلوار اُٹھانے کی سکت باقی نہیں رہی۔ ترکوں کی عظیم سلطنت کے حصے بخرے کردئیے گئے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کےساتھ ہی اسلام مغلوب ہوگیا۔
پھر ایک وقت آیا کہ یورپ کا نو آبادیاتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا، عربوں کے ساتھ ساتھ دیگر مسلم اقوام میں آزادی کی تحریکوں نے سر اُٹھانا شروع کردیا ۔ مجبوراًَ یورپ نے ملک تو آزاد کرنا شروع کئے لیکن ہر آزاد ہونے والے ملک میں کوئی نہ کوئی ایسا مسلۂ ضرور پیدا کر دیا کہ وہ ملک کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکے۔عربوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ان کے قلب میں یہودی ریاست اسرائیل کا جنم ہوا جس کی پشت پر پورا یورپ اور امریکہ کھڑا ہے ، اسرائیل دُنیا کے کسی دستور و ضابطے کو تسلیم نہیں کرتا وہ جب چاہئے نہتے فلسطینیوں پر گولہ باری شروع کردے کوئی پوچھنے والا نہیں۔عرب ریاستوں میں بادشاہتیں قائم کروائی گئی ، من پسند افراد کو نواز گیا اور جب تک یورپ و امریکہ چاہتے ہیں ان کی حکمرانی قائم رہتی ہے اور جب چاہئیں خاتمہ کروا دیتے ہیں۔
ایران سے عرب حکمرانوں کا خاتمہ 1502ء میں ہو ا جب اسماعیل صفوی تخت نشین ہوا۔ عربوں کے اقتدار کے بعد پہلی بار ایران نے آزادانہ حیثیت اختیار کی اور شیعیت کو ملکی مذہب قرار دیا۔ اسماعیل صفوی سے ایران کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے ایران کا شیعی دور کہا جاسکتا ہے ۔ رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کا خاتمہ انقلاب ایران نے کیا اور موجودہ ایران ایک مکمل شیعہ ریاست کے طور پر دنیا میں موجودہے۔
انقلاب کے بعدایران کے عربوں کے ساتھ کبھی بھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے ۔ یورپ و امریکہ کے اشاروں پر عراقی صدر صدام حسین نے ایران کے خلاف طویل جنگ لڑی ۔ جب عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی پر لٹکایا دیا گیا تو اس کے بعد امریکہ نے شیعہ سنی کی بنیاد پر عراق کو تقسیم کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش آج بھی مشرق وسطیٰ میں جاری ہے۔ امریکہ نے اس خطے میں ایک تیر سے تین شکار کئے ۔اول خطے میں ایرانی مفادات کو نقصان پہنچایا، عربوں کے دل میں ایران کا خوف بیٹھا کر تیل کی دولت پر قبضہ کر لیا۔ امریکہ جو کہ اس وقت عیسائی دنیا کا لیڈر ہے ،نے دنیا کے ہر خطے میں اسلامی مفاد ات کو نقصان پہنچایا۔
تاریخی اعتبار سے مشرق وسطی ٰمیں تین قوتیں عیسائی، ایرانی اور عرب طاقت حاصل کرنے کے لئے کشمکش میں رہی ہیں اور یہ کشمکش صدیوں پرانی ہے۔ اس وقت عربوں کے پاس جنگی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے وہ یورپ و امریکہ تو کیا ایران کی فوجی طاقت کے سامنے دو دن بھی ٹھہر نہیں سکتے۔ ایران ایک فوجی طاقت ہے لیکن وہ بھی یورپ یا امریکہ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے حالات حاضرہ کا اندازہ کیجئے۔ سعودی عرب کی حکومت کو اس وقت “عرب فوجی اتحاد “کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس اتحاد سے مقاصد کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن وہ واضح ہیں ۔ عراق کی تباہی کے بعد خطے میں صرف ایک ملک ایران ہے جو فوجی قوت رکھتا ہے۔ ایران کی فوجی قوت کو محددو کرنے کے یورپ و امریکہ نے اقتصادی پابندیوں عائد کئے رکھیں ۔یورپ و امریکہ کبھی نہیں چاہتے کہ ایران طاقت حاصل کرے ، وہ یہ بھی ہر گز نہیں چاہتے کہ عرب طاقت حاصل کر سکیں ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم انٹی مسلم تھی لیکن جب وہ پہلے غیر ملکی دورے کے لئے گھر سے نکلتا ہے تو سعودی عرب کا رُخ کرتا ہےاور چالیس اسلامی سربراہان ِ مملکت قطار میں کھڑے ہوکر امریکی صدر سے مصافحہ کرنے کو بھی اعزاز سمجھتے ہیں تو بات سمجھ میں آجانی چاہئے۔ عرب اسلامک امریکن سَمِٹ میں امریکی صدر کے خطاب اور امریکی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس سے کیا نتائج اخذ کئے جائیں؟ کیا یہ سَمِٹ اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے تھی؟ یا فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر مشرقِ وسطیٰ کو کسی جنگ میں دھکیلنے کی کوشش ہے؟
مشرق وسطیٰ ہی وہ خطہ ہے جو دُنیا کی تاریخ کو کسی نئے راستے پر ڈالتا ہے۔ ماضی کے حریف کبھی بھی ایک ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ان کے درمیان تصادم تو طے ہے جو ہو کر رہے گا۔ اس تصادم میں ایران کا کردار طے کر نا بڑا مشکل ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ ممکن نہیں کہ قیصرروم کے فلسفے کے محافظ کسریٰ کی سرزمین کے باسیوں سے کو ئی اتحاد کریں ، اور نہ ہی وہ عربوں کے لگائے ہوئے زخم بھولے ہیں ۔ بہت کچھ واضح ہو چکا ہے لیکن کوئی پیشنگوئی کرنا قبل از وقت ہے ۔

Facebook Comments

راجہ کاشف علی
سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار، شعبہ تعلیم سے وابستہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply