صنف نازک سے صنف آہن تک ۔۔عاصمہ حسن

ایک وقت تھا جب اولاد نرینہ کے لئے منتیں مرادیں مانگی جاتی تھیں چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے دوسری شادی بھی جائز سمجھی جاتی تھی اکثر گھروں میں بیٹوں کی خواہش میں بیٹیوں کی لائن لگ جاتی لیکن بیٹا ہونے کی امید قائم رہتی ـ بیٹیاں پیدا کرنے پر ماں کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا تھا اور یہ فرسودہ سوچ کہ بیٹے ہی خاندان یا باپ دادا کی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں عام تھی ـ یہی وجہ تھی کہ بیٹوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی جاتی تھی ان کو اعلٰی درجے کے اسکولوں میں بھیجا جاتا جبکہ اس کے برعکس بیٹیوں کو گھر پر ہی دینی تعلیم دی جاتی اور گھر داری سکھائی جاتی کہ انھوں نے ہانڈی روٹی ہی کرنی ہے ـ ایک وہ وقت بھی تھا جب جائیداد کے بٹوارے سے بچنے کے لئے لڑکیوں کی قرآن پاک سے بیاہ کر دیا جاتا ـ یا پھر خاندان میں ہی بے جوڑ شادیاں کر دی جاتیں تاکہ جائیداد خاندان سے باہر نہ جائے ـ پھروقت نے اور تعلیم نے شعور پیدا کیا ‘ لوگوں کی سوچ اور وقت بدلنے لگا ـ بیٹیوں کو پڑھایا جانے لگا ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کیا اہمیت ہے یہ بات سمجھ آنے لگی ـ اب بیٹیوں کو بوجھ تصور نہیں کیا جاتا ہاں البتہ ان کے نصیب سے ضرور ڈر لگتا ہے ـ اگر ماں باپ کے ہاتھ میں ہوتا تو کبھی اپنی بیٹیوں کے نصیب میں ایک آنسو یا دکھ کی ایک گھڑی نہ آنے دیتے ـ آج جہاں وقت بدل گیا ہے تو بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کے اچھے نصیب کی بھی دعا کی جاتی ہے تاکہ گھر میں آنے والی لڑکی گھر کو جنت بنا سکے اور گھر میں سکون اور خوشیوں کا راج ہو سکے ـ آج کی بیٹیاں ماں باپ کے لئے باعثِ فخر ہیں وہ نہ صرف ہر میدان میں اپنی قابلیت سے لوہا منوا رہی ہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں کام کر کے یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ کسی بھی طرح مردوں سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ پرعزم ہیں اور ہر مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور وقت پڑنے پر قدم سے قدم ملا کر چلنے کو تیار ہیں ـ
وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سوچ بھی بدلتی جا رہی ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو کئی ایک مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جو یہ باور کرواتی ہیں کہ ہمارا مستقبل روشن و تابناک ہے ـ
آج جب باہر نکلیں تو سڑکوں پر گاڑیوں’ بسوں’ ویگنوں ‘ موٹر سائیکلوں اور رکشوں  کا ایک اژدہام دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی طرف بھی چلے جائیں آپ کو ٹریفک ہر طرف رواں دواں نظر آتا ہے اور اکثر یہ رش بلاوجہ تاخیر کا بھی باعث بنتا ہے۔ لیکن ان شور مچاتی گاڑیوں’ بسوں ‘ویگنوں ‘ ادھر ادھر گھماتے موٹر سائیکلوں ‘ سائیکلوں اور رکشوں کے بیچ میں صنف نازک لڑکیاں جو کہ اب صنف آہن بن چکی ہیں خود کو اسکارف یا دوپٹے میں لپیٹے بڑے سلیقے اور پر وقار انداز میں موٹرسائیکل یا اسکوٹی چلاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت تبدیلی ہے۔ جہاں آج کی خواتین ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں وہاں یہ قدم بھی قابل ستائش ہے۔ گاڑی چلانا آسان ہے لیکن چونکہ اب گاڑیاں عام انسان کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں ایسے نازک حالات میں یہ بروقت اقدام انتہائی خوش آئند ہے۔ یہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے کہ آج کی لڑکی اتنی بہادر اور جرأت مند ہے کہ اتنے رش میں اتنی نظروں کا سامنا کرتے ہوئے کمال بہادری کے ساتھ ہوا کے دوش پر اڑتی ہوئی اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہے۔
سلام ہے ان والدین پر جنہوں نے اپنی بیٹیوں کی نہ صرف کمال پرورش و تربیت کی بلکہ ان کواعتماد بخشا اور ان کو خودمختار بنانے میں اپنا اہم ترین کردارعطا کیا۔ کیونکہ یہ گھر والوں اور والدین کا بھرپور بھروسہ ہی ہے جو آج وہ اس طرح ہمیں مضبوط نظر آرہی ہیں۔
اللہ تمام بچیوں کو بری نظر سے بچائیں ہر طرح سے حفاظت فرمائیں۔ انھیں اپنے والدین کے کئے قابل فخر بنائیں۔
یہ وقت دوسروں کے عیب نکالنے اور طعنے کسنے کا نہیں بلکہ خود کو اپنی سوچ کو بدلنے کا ہے ۔ تاکہ ہم دوسروں اور اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کر سکیں زندگی بہت چھوٹی ہے اور اس قلیل وقت میں ہم نے اپنے حصے کا کام کرنا ہے اپنے مقصد کو پانا ہے اور اپنے خوابوں اور منزل کو حاصل کرنے کی تگ و دو کرنے کا نام ہی زندگی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”صنف نازک سے صنف آہن تک ۔۔عاصمہ حسن

  1. لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
    ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
    روش مغربی ہے مدنظر
    وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
    یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
    پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

    نے پردہ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
    نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

    جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
    اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

    مفکر پاکستان ،مصور پاکستان ، شاعر مشرق ، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ

Leave a Reply