اچھا ہوا اداکار نہ بنا۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں 1967 میں دسویں کا امتحان پاس کرکے بڑے چاؤ سے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہونے گیا تھا۔ بڑے بھائی کی ہدایت کے مطابق احتیاط کے طور پر ایف سی کالج کا داخلہ فارم بھی بھر کے جمع کروا دیا تھا۔ اس وقت تو میں باقاعدہ رو دیا تھا جب گورنمنٹ کالج کا داخلہ فارم بھرنے کے وقت میرے ساتھ گئے میرے عم زاد بڑے بھائی نے مجھے پری انجنیرنگ منتخب کیے جانے سے روک کر مجھے پری میڈیکل چننے پر یہ کہہ کر مجبور کر دیا تھا کہ شعیب ( میرے بڑے بھائی ) نے یہی کہا ہے۔
پھر بھی میں ہر دوسرے تیسرے روز جیل روڈ سے چار نمبر بس پر بیٹھ کر جی پی او سٹاپ پر اتر کے گورنمنٹ کالج جا کر یہ دیکھ آتا تھا کہ لسٹ لگی کہ نہیں۔ پھر ایک روز لسٹ لگ گئی۔ میں بہت زیادہ خوش تھا۔ ڈبل ڈیکر بس میں بیٹھا اپنی دھن میں ظفر علی سٹاپ پر اترنا بھول گیا تو پہلی منزل کے آخری کھلے دروازے پر آ کے کھڑا ہو گیا جب پہلے فوارے پر مڑنے کے لیے بس کی رفتار سست ہوئی تو میں چلتی بس سے اترتے ہوئے پیٹ کے بل گر کے سڑک پر دو تین فٹ پھسلتا چلا گیا تھا۔ سفید قمیص داغدار ہو گئی تھی۔ پیٹ کئی جگیہ سے چھل گیا تھا مگر شکر یہ کہ پہلے دروازے سے نہیں کودا تھا۔ ایسے میں بس کے پچھلے پہیے اوپر سے گذر جاتے اور قصہ تمام ہو جاتا۔ نام کے ساتھ ڈاکٹر لگتا ہی نہ جس سے عزیزم وجاہت مسعود کو شاید چڑ ہے اور وہ اپنے سائٹ پر میری تحریر لگاتے ہوئے ڈاکٹر کے لاحقے کو حذف کر دیتے ہیں۔
خوشی سے ماں کو خوش خبری سنانے کو آگے گئی بس سے کودا تھا، جب سی سی کرتا ماموں کی کوٹھی 22۔ ظفر علی روڈ پہنچا تو ماں نے بجائے بلائیں لینے کے مجھے دیہاتی گنوار کہا تھا جسے شہر کی اومنی بسوں میں چڑھنے اترنے کی تمیز نہیں تھی۔ زندگی میں پہلی بار یاد نہیں کس نے میرے پیٹ کے زخموں پر ٹنکچر آیوڈین لگایا تھا اور میں مارے جلن کے چارپائی پر کھڑا ٹھن ٹھن کرتا ہوا اچھل رہا تھا۔
داخلہ ہو گیا۔ میں اقبال ہوسٹل نشین ہو گیا۔ گرمیاں گذر گئیں۔ کالج کا قرمزی بلیزر اور سرمئی پینٹ پہن کر جی سی کے طالبعلم ہونے کی رعونت آ گئی تو ایک روز بڑے بھائی نے، جو مجھے ملنے آئے تھے پوچھا کہ اداکار بننا چاہتے ہو۔ اس عمر میں بھلا کون ایسی پیشکش کو ٹھکرا سکتا ہے۔ ویسے بھی میرے لیے بھائی کی کہی ہر بات حکم کا درجہ رکھتی تھی اگرچہ ان کے آنکھ اوجھل ہوتے ہی حکم شکنی بھی کرتا تھا۔ اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے مجھے کمال رضوی مرحوم سے ملنے کو کہا تھا۔
دو بار ان سے ملا تو انہوں نے آڈیشن دینے کو کہا۔ دن اور جگہ بتا دی۔ تب ریڈیو سٹیشن کے احاطے میں پی ٹی وی کا ایک کمرے کا سٹوڈیو ہوتا تھا۔ مقررہ دن اور وقت پر وہاں پہنچا تو کوئی بیس پچیس لڑکے لڑکیاں پہلے سے موجود تھے۔ ہم سب کو وہاں پڑے ہوئے کاغذوں میں سے ایک ایک کاغذ اٹھا لینے کو کہا گیا۔ ہم نے اٹھا لیے۔ کاغذوں پر کردار اور مکالمے لکھے ہوئے تھے۔ قطار میں میرے آگے کے دس پندرہ امیدواروں نے جب مختلف آوازوں اور مختلف انداز میں کیمرے کے سامنے اداکاری کرتے ہوئے مکالمے بولے تو میں گھبرا گیا کہ مجھ سے اداکاری نہیں ہونے کی اور قطار سے نکل کر دور دھرے ایک سٹول پر بیٹھ کر باقیوں کو اداکاری کرتے دیکھتا رہا۔ اگر ہمت کر لیتا تو شاید اداکار بن جاتا۔ ممکن ہے اس قطار میں کچھ ایسے بھی ہوں جو بعد میں اداکار یا شاید معروف اداکار بھی بنے ہوں۔
اسی طرح اداکاری کا ایک موقع تب ملنے کو تھا جب وزیر بن چکے مختار اعوان نے مجھے پی پی پی کی طالبعلم تنظیم پی ایس ایف منظم کرنے کو کہا تھا۔ بار بار تاکید و تحکم کے بعد اس نے میری ٹانگیں تڑوانے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ میری بجائے نشتر میڈیکل کالج میں پی ایس ایف تو میرے گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک ہم جماعت انوار غزالی، جو ایک سال بعد داخل ہوا تھا، نے اپنے ساتھی اشفاق کے ساتھ منظم کر لی مگر میں جیل چلا گیا سیاسی اداکار نہیں بن سکا۔
آجکل سیاسی اداکار غیر سرکاری اداکاروں کا ایک بار پھر سے تذکرہ کر رہے ہیں یہ بتائے بغیر کہ بھئی وہ سرکاری اداکار کون ہوتے ہیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم جس لفظ ایکٹر کو اداکار سمجھتے ہوں اس کا مطلب دراصل دوسرا ایکٹر یعنی ” کام کرنے والا” ہو۔ مگر ہم نے اس سے پہلے کبھی ریاستی اداکاروں کو سرکاری کام کرنے والا نہیں بلکہ سرکاری افسر یا سرکاری اہلکار ہی سنا ہے۔ ایران والے البتہ درست ترجمہ کرتے ہیں یعنی “کارمند دولتی”۔
ویسے سچی بات ہے کہ ہوتے سارے ہی اداکار ہیں۔ میں نے ایسے ایسے چوہوں کو افسر بننے کے بعد شیر، چیتے، لگڑ بھگڑ اور پتہ نہیں کیا کچھ بنتے دیکھا ہے جن کی جون تو انسان ہی رہتی ہے مگر اوصاف حیوانوں کے سے اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ جنہوں نے کبھی مکھی نہیں ماری ہوتی وہ پولیس کے اعلٰی افسر بن کر بدمعاشوں اور اپنے آقاؤں کے سیاسی مخالفین کو باقاعدہ ٹھکانے لگانے کے احکامات بلا پس و پیش دے ڈالتے ہیں۔ وہ جن کی کہی شاید ان کی ماں نہیں سنتی تھی وہ اس قدر رعونت سے پیش آتے ہیں کہ الامان۔ ظاہر ہے وہ جو ہوتے ہیں، سرکاری اداکار بننے کے بعد وہ نہیں رہتے بلکہ محض اداکار بن کر کے رہ جاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے کردار متنوع نہیں ہوتے۔
اب بات کرتے ہیں غیر سیاسی اداکاروں کی۔ کبھی پہلے بھی آپ نے ایسا لفظ سنا تھا۔ کم از کم میں نے تو نہیں سنا تھا۔ اگر سنا تھا تو مجاہد، جنگجو، دہشت گرد جیسے مثبت و منفی لفظ سنے تھے ان لوگوں کے بارے میں جو کسی تنظیم کے تحت یا اپنے طور پر مسلح کارروائیاں کرتے ہوں البتہ نان سٹیٹ ایکٹر کی اصطلاح تب برتی جانے لگی جب یہ تخصیص کرنا ضروری ہوا کہ ایسی ہی کارروائیاں سرکار کے ملازمین بھی کر سکتے ہیں بلکہ کرتے ہیں۔ جنگوں میں تو ایسا ہوا ہی کرتا ہے کہ دشمن کے خلاف سرکار سے وابستہ لوگ فوجی/ غیر فوجی اور دشمن ملک میں موجود فوجی/غیر فوجی جاسوس اور ان کے مقامی ساتھی دشمن ملک کو نقصان پہنچانے والی کارروائیاں کرتے ہیں مگر ایام امن میں ایسی کارروائیاں سٹیٹ ایکٹرز نان سٹیٹ ایکٹرز سے کروا سکتے ہیں یا نان سٹیٹ ایکٹرز اپنے طور پر کر سکتے ہیں۔
میں تو خیر کسی بھی قسم کا اداکار نہ بن پایا۔ سرکار میں رہا تو افسری دکھانا نہیں آئی، سرکار سے باہر رہا تب بھی ملنگ رہا یعنی جیسا ہوں جیسا تھا ویسا ہی مگر بعض سیاستدان بہت اچھے اداکار نہیں ہوتے یا مکالمہ غلط بول جاتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا ہے اس بار بھی کہ بڑی سکرین کے ایک بڑے اداکار اپنے مکالمے میں لفظ ” ممبئی” کا اضافہ کرکے ہدایت کاروں اور ناظرین دونوں ہی کی تنقید کی زد میں آ گئے ہیں۔ سرحد پار جا کر سو ڈیڑھ سو لوگ مار دیتے ہیں، کہہ دیتے تو بہت حد تک بچ جاتے۔ اچھا ہوا میں اداکار نہیں بنا جو بن گئے ان کی کونسی جے جے کار ہو رہی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply