سیکس ،سماج اور تعلیمی ادارے

سیکس ،سماج اور تعلیمی ادارے
وقاص خان
جین ازم میں انسان کے سات مراحل ذکر کیے جاتے ہیں۔ پہلے تین مراحل کوخالص حیوانیت اور دوسرے چار مراحل کو انسانیت کا پرتو مانا جاتا ہے۔ جین ازم کی تعلیمات کے مطابق جن انسانوں کی تگ و تاز فقط پہلے تین مراحل تک محدود رہے وہ انسانیت کے سب سے نچلے درجے یعنی حیوان ہوتے ہیں۔ یاد رہے ان تین مراحل میں سیکس تیسرا مرحلہ ہے۔ یعنی وہ لوگ جو سیکس ہی کو نشان منزل جانتے ہیں وہ ابھی انسانیت سے بھی کم درجہ پر ہیں۔ یاد رہے یہاں سیکس سے مراد یہ نہیں کہ ہر کسی کے ساتھ جنسی تعلقات بنانے کی خواہش ہو بلکہ اس سے وہ لوگ بھی مراد ہیں جو کسی ایک کے ساتھ جنسی ملاپ کے متلاشی رہیں۔ جنسی ملاپ بھی فقط سیکشول انٹرکورس نہیں بلکہ کسی انسان کا حصول اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کی چاہت ہے۔ عرف عام میں اس خواہش کو محبت اور عشق کہا جاتا ہے۔ جین ازم کی اس تھیوری سے اتفاق و اختلاف ہر دو کا امکان ہے مگر عقل سلیم کا مالک شاید ہی کوئی شخص ہو گا جو جنسی خواہشات کے زیر اثر زندگی گزارنے کو اعلیٰ انسانی اقدار میں شمار کرے۔ بے شک جنسی خواہشات سے فرار ممکن نہیں لیکن انہیں مقصد حیات بنانا بھی فضول ترین عمل ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں فنون لطیفہ سے لے کر تعلیمی اداروں کے ماحول تک ہر جگہ اسی نوع کی خواہشات کو بے دریغ فروغ مل رہا ہے۔ پروفیسر سبط حسن نے لکھا تھا کہ بیسویں صدی کا فنکار اپنی ذات میں اتنا مگن ہے کہ وہ فن کی خدمت میں محبوب کی دل آزاری کو بھی جائز مانتا ہے ۔ سبط حسن شاید ان فنکاروں کی بات کر رہے تھے جنھیں بیسویں صدی میں کوئی مقام نہیں مل سکا ورنہ جن فنکاروں کو ہمارے سماج نے ہیرو مان لیا ہے وہ تو “بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے”کو حاصل زیست جتلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز کم سن نوجوان خود کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کس قدر آزردگی اور اذیت ہے اس خبر میں کہ اکیسویں صدی کا نوجوان کچھ بننے کے بجائے عشق میں فنا ہو جانا چاہتا ہے۔ ہمارے انحطاط پذیر سماج کا المیہ ہے کہ جن نوجوانوں کو ستاروں پہ کمندیں ڈالنا تھیں وہ عشق میں کامیابی یا ناکامی کو مزید جینے یا نہ جینے کا پیمانہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب تعلیمی اداروں سے نوجوانوں کی خود کشی کی خبر باہر آتی ہے تو ہمارے دانشور مشرقی و مغربی اقدار کے تصادم کی بحث میں الجھ جاتے ہیں۔ ایک جانب سے آواز آتی ہے کہ سماج میں گھٹن ہے اسے ختم کیا جائے تاکہ عشق کی آزادی میسر آئے اور نوجوان عشق میں مرنے کے بجائے عشق لڑا کر جینے کا حوصلہ پائیں۔ ایک اور صاحب اسی بیانیے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہتے ہیں کہ عشق اور جنس کی آزادی تو مغرب میں بھی ہے وہاں ایسے المیے کیوں جنم نہیں لیتے؟ مغرب باسی ایک محترمہ کہتی ہیں اگر تعلیمی ادارے میں لڑکا اور لڑکی میں محبت کی پینگیں بڑھ جائیں اور وہ شادی کر لیں تو چیں بہ جبیں ہونے کی ضرورت کیا ہے؟
اچھا ہے جناب۔۔ بہت اچھا۔۔ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا لیکن اتنا تو بتائیے کہ تعلیمی ادارے سماج میں موجود گھٹن کا حل تلاش کرنے کے لیے ہوتے ہیں یا تعلیم حاصل کرنے کے لیے؟؟؟ کیا تعلیمی اداروں کا مقصد مشرقی یا مغربی اقدار میں ڈھلنا ہے یا پڑھ لکھ کر کچھ بننا؟؟
وطن عزیز کے دانشمندوں کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ بچپن سے جو سنتے آئے تھے کہ تعلیمی ادارے شعور بیدار کرنے، علم کی روشنی پھیلانے اور ملک و ملت کے معمار پیدا کرنے کی جگہ ہوتے ہیں وہ سراسر جھوٹ تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تعلیمی ادارے جنسی خواہشات کی تسکین اور”گڈ ٹائمز”تراشنے کے مقامات ہیں۔ معاف کیجئے گا ہم تو سمجھے تھے کہ جنسی خواہشات کے پیچھے پڑنا زندگی کو برباد کرنے جیسا ہے یا پھر انسانیت کے نچلے ترین طبقے میں سے ہونے پر راضی ہو جانا۔ لیکن آج پتہ چلا کہ جنسی خواہشات کا تعاقب کرنا وہ عمل ہے جس کے لیے تعلیم سے منہ موڑنا بھی اچنبھے کی بات نہیں۔ حیرت تو اس پر بھی ہے کہ تعلیم کو تمام آسمانی مذاہب میں مقدس ٹھہرایا گیا ہے اور جنسی خواہشات کو زندگی کا مقصد بنانا معیوب، اس کے باوجود جانے کہاں سے یہ نکتہ ہمارے ذہنوں میں در آیا ہے کہ سماج میں موجود گھٹن کی بنا پر تعلیم کو پس پشت ڈال دیا جائے اور کیرئر بلڈنگ کے بجائے عشق وشق لڑایا جائے؟؟؟
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے سماج میں جنسی گھٹن خواہشات کے گھوڑے کو بے لگام چھوڑنے کی وجہ سے محسوس ہو رہی ہے۔ مشرق و مغرب کے کسی بھی ترقی یافتہ سماج میں جنسی خواہشات کو اہم ترین مقام حاصل ہواہے اور نہ کبھی ہو گا۔ کیونکہ جنسی خواہشات میں نہ پڑنا ہی تو انسانیت تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ اگر متمدن دنیا انسان بننے سے ہی منہ موڑ لے تو کائنات کے باقی رہنے کا جواز بھی ختم ہو جائے گا۔
اس لیے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کیجئے۔ انہیں بتائیے کہ کسی کا ساتھ حاصل کر پاناہر کس و ناکس کا پیدائشی حق ہے لیکن سماج میں عزت و عظمت کا مقام فقط تعلیم کے ساتھ ملتا ہے۔ ہیر اور رانجھا، قیس اور فرہاد، لیلیٰ اور مجنوں انسانیت کے لیے آئیڈیل نہیں ہیں جنہوں نے عشق میں خود کو برباد کر دیا تھا بلکہ انسانیت کے آئیڈیل ارسطو، ابن سینا، خوارزمی، ابن خلدون، ابن رشد اور آئن سٹائن جیسے نابغہ روزگار ہیں۔ جنہوں نے علم و فکر کے لیے اپنی زندگیاں تیاگ دی تھیں۔

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply