کشمکش

ستر سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر دس سال بعد ٹرپل ون بریگیڈ حرکت میں آتی ہے اور سویلین حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جاتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999 کے بعد جب اقتدار سول حکومت کو منتقل گیا بہت کچھ بدل چکا تھا۔30 سالہ افغان پالیسی رد ہو چکی تھی۔ہماری مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہو چکی تھیں۔ایران کے ساتھ تعلقات میں ماضی جیسی گرم جوشی باقی نہیں تھی۔بھارت کو”موسٹ فیورٹ کنٹری” قرار دینا باقی تھا۔”کور ایشو” کشمیر منظر سے غائب کردیا گیا تھا۔
بھارت پاکستان کے حصے کا پانی مکمل چوری کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔پاکستان کے ائیر بیس امریکی کنٹرول میں تھے۔اور بھی بے شمار حالات و واقعات تھے جو عوام کو بتانے کے نہیں تھے۔عوام کو”امن کی آشا” میں لگا دیا گیا تھا۔بگٹی قتل، لعل مسجد آپریشن ، 12مئی اور اسی طرح کے کئی واقعات اور اٹل بہاری واجپائی سے جاکر ہاتھ ملانا اور جندال سے ملاقاتیں اس کے علاوہ ہیں ۔
بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کی کامیاب سازش پر ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ بینظیر بھٹو مشرف سے ڈیل کر کے پاکستان آئیں۔محترمہ وزیراعظم کی امیدوار تھیں اور انتخاب کے بعد بینظیر بھٹو جیسی لیڈر کسی طور مشرف کے زیر سایہ ڈمی قسم کی وزیراعظم نہیں بن سکتی تھیں۔اونچے ایوانوں میں کیا طے پایا آج تک کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔الزام ہے کہ آصف علی زرداری نے بینظیر قتل کیس میں پیش رفت نہیں ہونے دی، یہ بات کسی حد تک درست نظر آتی ہے کیوں کہ اگر کوئی ایوان صدر میں بیٹھ کر بھی اپنی بیوی کے قاتلوں تک نہیں پہنچ سکتا تو انگلیا ں تو اُٹھیں گی۔پیپلزپارٹی سے اختلاف اپنی جگہ لیکن،پاکستان ایک لیڈر سے محروم ہوگیا۔۔۔کہا جاتا ہے سیاستدان ناکام ہوتے رہے ہیں ۔ سیاستدان ناکام نہیں وقتی فوائد کے لئے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہے ہیں۔کبھی امریکہ کی طرف دیکھا جاتا تو کبھی عربوں سے مدد لیجاتی ہے ۔ستر سالوں سے سول حکومتیں اپنی پگڑی بچانے کے لئے ہی تگ و دو کرتی آئی ہیں ۔
سول حکومتی دور 10 ویں سال میں داخل ہوچکا ہے یہ ہماری قومی عادت کے خلاف ہے ،تاریخی اعتبار سے مارشل لاء کا وقت ہوا ہی چاہتا ہے ۔دسترخوانی قبیلہ جو مارشل لا ء کے ثمرات سمیٹتا چلا آیا ہے ، وہ جمائیاں لے رہا ہے اُس کی شدید خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی تو ہلچل ہو۔ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کردیا جاتا ہےکہ سول ملٹری تعلقات درست نہیں چل رہے ، تاریخی اعتبار سے سول ملٹری تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے ۔ اقتدار کا نشہ کسے پسند نہیں لیکن بحیثیت قوم کچھ فیصلے تو کرنے پڑیں گے۔۔۔ آخر کب تک یہ چوہے بلی کا کھیل یوں چلتا رہے گا۔ کوئی حدود مقرر کرنی ہونگی۔ قومی ادارے کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آئین ِ پاکستان میں مقررکردہ حدود کی پاسداری کی جائے۔ اس میں کوئی انا کا مسئلہ درپیش نہیں، پاکستان کی بقا و سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کریں ، اس میں کسی کی جیت یا ہار کا سوال نہیں اُٹھتا۔سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے ایک بار روتے ہوئے کہا تھا کہ” میں یہ ووٹ اپنے ضمیر کے خلاف دے رہا ہوں “۔۔۔ یہ ہے اصولی بات ،نہ چاہتے ہوئے بھی ملکی مفادات پر اپنی انا کو قربان کردینا اور انا کی قربانی دینا بڑی بات ہے ۔
ڈان لیکس کا معاملہ سمٹتے سمٹتے بہت کچھ بکھیر گیا، ملٹری قیادت نے ٹویٹ تو واپس لی اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا ،اور خاص کر ان کے لئے جن کے ہاتھ میں بہت کچھ ہو لیکن ملٹر ی قیادت نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا لیکن دسترخوانی قبیلہ سخ پا ہو گیا ہے، نام نہاد دانشور اسے اس طرف دھکیلنے کی کوشش میں جس سے نکلنے کے بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ مارشل لاء کا اختتام کبھی بھی کسی خوشگوار انجام پر نہیں ہوا، یہ ہما ری تاریخ ہے اس سےسبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ حکومت کے خلاف نا کا م سیاستدانوں اور مارشل لاء کے ثمرات سمٹنے والوں کی بازی گر ی جاری ہے ۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے خلاف افتخار محمد چوہدری کی آمریت تھی ۔ مان لیا کہ موجودہ و سابقہ حکمرانوں کی شاہانہ طرز حکمرانی بھی” آ بیل مجھے مار” کے اصول پر چل رہی ہے ، لیکن ریاست ِ پاکستان کی بقاء کے لئے لڑنا پڑے گا اپنی اپنی انا کے خلاف۔

Facebook Comments

راجہ کاشف علی
سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار، شعبہ تعلیم سے وابستہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply