تیرہویں عالمی اردو کانفرنس پر ایک نظر۔۔محسن علی

13 ویں عالمی اردو کانفرنس میں دیگر زبانوں پر کئی لوگوں کو اعتراض تھا ۔۔یا تو اردو نام نہیں رکھیں ،کانفرنس کا یا دیگر زبانوں کا بھی رکھنا ہے تو پاکستانی ادبی کانفرنس رکھ لیں۔
ہم نے اپنے کانوں سے سنا کہ اب براہوی زبان بھی آئندہ سال ممکنہ جگہ بنائے گی ۔۔اب اگر اس پر چپ رہنے کو بھی کہا گیا لوگوں نے کہا یہ بات کی گئی تو پھر ویسے ہی کراچی کے لوگ کسی بھی بارے میں رائے دیں تو انہیں تعصب سے دیکھا جاتا ہے ۔۔اب کراچی کی کوئی آواز نہیں ،ادبی کانفرنس کے بارے میں یہاں تک سنا گیا  کہ یہ اب محض کانفرنس ہوکر رہ گئی ہے  ۔بعض سندھی دوستوں نے کہا سندھی انسانوں کے حالات دن بہ  دن مشکل ہورہے ہیں اور انکو بجائے ایک جگہ کلچر ڈے پر یا مختلف جگہ پر پروگرام کرنے چاہیے تھے نا کہ سڑکیں بلاک  کرتے جگہ جگہ سے ۔
جبکہ میری رائے میں اردو میں ہر زبان کے الفاظ شامل ہیں دیگر زبانوں کے شامل ہونے پر مجھے اعتراض نہیں اس سے اردو کو تقویت ہی ملے گی ہاں مارکیٹنگ کے حوالے سے جو نام آپ بیچ رہے ہوں اور اندر سامان کچھ اور نکلے تو افسوس ہوتا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ کئی لوگوں نے اس کا ایسے ہی تاثر لیا ۔۔ایک کوشش ہے ایک دہائی ہوگئی ہمیں مزید تنوع لانا چاہیے کیا معلوم دیگر زبانوں کو جگہ دینے سے نفرتیں رنجشیں و تعصب کم ہو اور ایک دوسرےکو سمجھنے میں مدد ملے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر ہم تو اچھا وقت گزار کر لوگوں سے مل کر دو سیشن بھگتا کر  آرام سے واپس  آگئے ۔۔ویسے تو مشکل سے ہی یہاں تفریح و علمی گفتگو ہوتی ہے کہیں ڈھنگ کی تھوڑی بہت گھر سے نکلیں کچھ سیکھیں کچھ اچھی یادیں لے کر جائیں باقی بات سے بات ہوتی رہےگی۔۔۔ایک طرف مکالمہ لانا چاہتے ہیں  دوسری جانب اس رائے پر بات کی جاسکتی ہے نا کہ بری شکل بنالی جائے۔ جہاں رہیں خوش رہیں ،مسکرائیں!

Facebook Comments

محسن علی
اخبار پڑھنا, کتاب پڑھنا , سوچنا , نئے نظریات سمجھنا , بی اے پالیٹیکل سائنس اسٹوڈنٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply